آہیں بھر کے رونا، رو رو کے آہیں بھرنا
اِک ترے غم نے سکھایا جی جی کے روز یوں مرنا
کیا کبھی دیکھا ہے دل کا جُڑ جُڑ کے بکھرنا؟
خود بتا کیا جائز نہیں میرے اشک ابھرنا؟
وصل نا ہونے میں کس بات کا غم ہے کرنا؟
کرب تو ہوتا ہے جب کسی کا مل کے ہو بچھڑنا
اب تو عہدِ وفاؤں سے بھی دوری ہے رکھنی
حضرتِ انساں کا کام ہی ہے وعدوں سے مُکرنا
آپ کے چلائے ہوئے تیر بھی دے رہے دھوکہ
پارِ جگر کیجئے انہیں، بس چُھو کے کیا گزرنا؟
زندگی تو بھی آ کے، محبت اپنی جگا دے
ہم تو موت کی آس میں روز، یاں مر رہے ورنہ

0
61