یہ زندگی تیرے نام کرکے
میں اپنی شامیں تمام کرکے
وجودِ ہستی مٹا رہا ہوں
میں ہجر کے قصے عام کرکے
چلو کہیں کو ہیں کھو نکل تے
یہ ذات اپنی بے نام کرکے
کبھی ملیں تو یہ کہنا ان سے
کے کیسا انکو ہے لگ رہا اب
یوں میری صبح کو شام کرکے
یوں مجھ کو رسیائے جام کرکے
نکل پڑے ہیں وہ خود کہیں کو
یوں دل میں میرے قیام کرکے
یوں ساری دنیا کو عام کرکے
یوں عشق مجھ پر حرام کرکے
وہ کوچہ اپنا ہیں چھوڑ بیٹھے
تعلقوں کو ہیں توڑ بیٹھے
تماشہ عشق اختتام کرکے
محبتوں کو تمام کرکے

2
139
گستاخی معاف فرما دیجیئے گا۔

مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ شاعری کی کونسی صنف ہے؟

ہاں البتہ مصرعوں کی ترتیب بدلنے پر شاید یہ غزل قرار پائے۔

بلکل صحیح فرمایا

0