یہ زندگی تیرے نام کرکے |
میں اپنی شامیں تمام کرکے |
وجودِ ہستی مٹا رہا ہوں |
میں ہجر کے قصے عام کرکے |
چلو کہیں کو ہیں کھو نکل تے |
یہ ذات اپنی بے نام کرکے |
کبھی ملیں تو یہ کہنا ان سے |
کے کیسا انکو ہے لگ رہا اب |
یوں میری صبح کو شام کرکے |
یوں مجھ کو رسیائے جام کرکے |
نکل پڑے ہیں وہ خود کہیں کو |
یوں دل میں میرے قیام کرکے |
یوں ساری دنیا کو عام کرکے |
یوں عشق مجھ پر حرام کرکے |
وہ کوچہ اپنا ہیں چھوڑ بیٹھے |
تعلقوں کو ہیں توڑ بیٹھے |
تماشہ عشق اختتام کرکے |
محبتوں کو تمام کرکے |
معلومات