بس وہی ہجرِ جاں کے غم ہیں
اس سے ہی آنکھیں نم ہیں
اس ویران سے کمرے میں
خوشیاں ساری بے دم ہیں
وہ ہمیں دیکھتے تو ہیں مگر
نظریں ملتی ذرا کم ہیں
رو لیتے ہیں ذرا چھپ کے
روشنیاں ابھی مدھم ہیں
اس کے دے جانا نئے زخم
میرے زخموں کے مرہم ہیں
شکوے کرنے چھوڑ دئیے
اب کس بات پہ برہم ہیں
مسکرا لیں گے ٹھہر کر وہ
ابھی سامنے انکے ہم ہیں

0
61