دیتے کیوں آواز نہیں اب
میرے کیوں ہمراز نہیں اب
اب تو شکوہ کچھ ایسا ہوتا
رہتا میں ناراض نہیں اب
میں خود سے ہی لڑ بیٹھا ہوں
خود کا ہی ہم آواز نہیں اب
اس کو کیا انجام کا ڈر ہو
جس کا کوئی آغاز نہیں اب
جو تجھ کو خوش کر پائیں یوں
میرے وہ الفاظ نہیں اب
شاید یکسر ہی بھلا بیٹھے
کرتے وہ نظر انداز نہیں اب

0
66