جو اسکی یاد لے آئیں، وہ لمحے اب نہیں آتے |
پر اسکی یاد آ جائے، تو آنسو ڈھل نہیں پاتے |
تری گلیوں سے نکلے تو، ہمیں دنیا دکھی اپنی |
جاں ہم گھر سے مہ خانہ، اور میخانے سے گھر جاتے |
گئے وہ پل جہاں پر ہم، انہیں ہر روز ملتے تھے |
مگر اب دکھ بھی جانے پر، انہیں ہم دکھ نہیں پاتے |
مری اس بکھری دنیا سے، کسی کو کیا ہی مطلب ہو |
اندھیروں میں رہ رہ کر، اب اجالوں سے ہیں گھبراتے |
ہے گزری عمر ساری پھر، یہ دل کو بات سمجھاتے |
وہ نغمے اب نہیں گاتے، انہیں اب ہم نہیں بھاتے |
معلومات