جو اسکی یاد لے آئیں، وہ لمحے اب نہیں آتے
پر اسکی یاد آ جائے، تو آنسو ڈھل نہیں پاتے
تری گلیوں سے نکلے تو، ہمیں دنیا دکھی اپنی
جاں ہم گھر سے مہ خانہ، اور میخانے سے گھر جاتے
گئے وہ پل جہاں پر ہم، انہیں ہر روز ملتے تھے
مگر اب دکھ بھی جانے پر، انہیں ہم دکھ نہیں پاتے
مری اس بکھری دنیا سے، کسی کو کیا ہی مطلب ہو
اندھیروں میں رہ رہ کر، اب اجالوں سے ہیں گھبراتے
ہے گزری عمر ساری پھر، یہ دل کو بات سمجھاتے
وہ نغمے اب نہیں گاتے، انہیں اب ہم نہیں بھاتے

0
70