آج پھر عاشقی تمام ہوئی
پھر سے رسوائی سرِ عام ہوئی
آج پھر آ گئے وہ رو برو یوں
آج پھر آنکھیں ہمکلام ہوئی
اپنی پرہیزی پر فخر تھا بڑا
طلب اسکی نظر کی جام ہوئی
آج پھر ویراں سا پڑا وا ہوں
شبِ تنہائی پھر قیام ہوئی
آج پھر سے یہ رات بھاری ہے
آج پھر نیند یوں حرام ہوئی
مجھے کیوں چین ہے نہیں مل را
بے قراری یہ کیوں دوام ہوئی
انہوں نے بات ہی تو کی تھی بس
کیوں زباں پھر یہ لا کلام ہوئی
ہجر پر تو ہم ایسے روتے ہیں
گویا یہ زندگی تمام ہوئی
ہر ہی دن کیوں یہ ڈوب ری ہیں معاز
کیوں یہ سانسیں مثال شام ہوئی

0
80