مَری بربادیاں اکثر |
یہ مجُھ سے پوچھ لیتی ہیں |
کہ تُْو ویرانیوں سے اب |
غَموں کی وادیوں سے اب |
جِھجھَکنا چھوڑ بیٹھا ہے |
کیوں ڈَرنا چھوڑ بیٹھا ہے |
کیوں اب اُٹھ اُٹھ کہ راتوں کو |
سِسَکنا چھوڑ بیٹھا ہے |
کیوں اب بس مُسکراتا ہے |
وہ ہنسنا چھوڑ بیٹھا ہے |
کیوں اب تو اُنکی راہوں کا |
وہ تکنا چھوڑ بیٹھا ہے |
ز خم بھنبھوڑ بیٹھا ہے |
یوں خود کو توڑ بیٹھا ہے |
غموں سے اپنی ہستی کو |
کیوں ایسے جوڑ بیٹھا ہے |
وہ جو تھوڑا تعلق تھا |
کیوں اسکو چھوڑ بیٹھا ہے |
تُو کیوں سب دنیا والوں سے |
منہ اپنا موڑ بیٹھا ہے |
معلومات