مَری بربادیاں اکثر
یہ مجُھ سے پوچھ لیتی ہیں
کہ تُْو ویرانیوں سے اب
غَموں کی وادیوں سے اب
جِھجھَکنا چھوڑ بیٹھا ہے
کیوں ڈَرنا چھوڑ بیٹھا ہے
کیوں اب اُٹھ اُٹھ کہ راتوں کو
سِسَکنا چھوڑ بیٹھا ہے
کیوں اب بس مُسکراتا ہے
وہ ہنسنا چھوڑ بیٹھا ہے
کیوں اب تو اُنکی راہوں کا
وہ تکنا چھوڑ بیٹھا ہے
ز خم بھنبھوڑ بیٹھا ہے
یوں خود کو توڑ بیٹھا ہے
غموں سے اپنی ہستی کو
کیوں ایسے جوڑ بیٹھا ہے
وہ جو تھوڑا تعلق تھا
کیوں اسکو چھوڑ بیٹھا ہے
تُو کیوں سب دنیا والوں سے
منہ اپنا موڑ بیٹھا ہے

0
53