یار کے در سے ملی ہے تو حقارت بھی سہی
اس کے ہاتھوں سے ملا غم تا قیامت بھی سہی
کون کہتا ہے مجھے ان کی حمایت بھی ملے
وہ کریں گر تو یوں بے بات ملامت بھی سہی
کیا کرنا مجھے ہر بات کی سچائی سے اب
کرتے ہیں گر وہ تو یوں جھوٹ پہ حجت بھی سہی
مرتے ہو کیوں یوں محبت کی قرابت کے لئے؟
اس کی خاطر جو کروں میں تو وہ ہجرت بھی سہی
عشق کے رستے میں ہوں تو گدا گر ہی سہی میں
اس کے در سے جو میں مانگوں تو وہ حاجت بھی سہی

0
66