ہے عہد و وفا سے کوئی عار نہیں
پر ٹوٹا تھا یہ دل بس اک بار نہیں
دستک کو بھلانے کا سوچا تھا مگر
باہر جو کھڑا ہے وہ فقط یار نہیں
تسکینِ غمِ دل ہے تجھے چاہوں صرف
عشقِ لا حاصل سے مجھے خار نہیں
گریہ میرا اُن کو نظر آ ہی گیا
برباد تھے جو ہم وہ بے کار نہیں
بس خود کو شب و روز مٹایا ہی تو تھا
یہ عشق کوئی اتنا بھی دشوار نہیں
کیا فکر تمہیں کانٹوں پہ چلتے ہو اگر
رستے میں وہ دِکھ جائیں تو گلزار نہیں؟
اک آگ کا دریا ہی تو ہے کیا غم؟
اُن آنکھوں میں بھی ڈوبے تھے سو بار نہیں؟
اک لمحے کو نظریں ملائی تھی فقط
اِس موت کا باعث کوئی ہتھیار نہیں

0
21