ہے عہد و وفا سے کوئی عار نہیں |
پر ٹوٹا تھا یہ دل بس اک بار نہیں |
دستک کو بھلانے کا سوچا تھا مگر |
باہر جو کھڑا ہے وہ فقط یار نہیں |
تسکینِ غمِ دل ہے تجھے چاہوں صرف |
عشقِ لا حاصل سے مجھے خار نہیں |
گریہ میرا اُن کو نظر آ ہی گیا |
برباد تھے جو ہم وہ بے کار نہیں |
بس خود کو شب و روز مٹایا ہی تو تھا |
یہ عشق کوئی اتنا بھی دشوار نہیں |
کیا فکر تمہیں کانٹوں پہ چلتے ہو اگر |
رستے میں وہ دِکھ جائیں تو گلزار نہیں؟ |
اک آگ کا دریا ہی تو ہے کیا غم؟ |
اُن آنکھوں میں بھی ڈوبے تھے سو بار نہیں؟ |
اک لمحے کو نظریں ملائی تھی فقط |
اِس موت کا باعث کوئی ہتھیار نہیں |
معلومات