پتھر کی آنکھ سے بھی آنسو چھلک پڑے
میرے فسانے کے جو کاغذ ڈھلک پرے
یہ ہجر تمہیں کتنا آسان لگتا ہے
میری زمیں پہ گویا آکر فلک پڑے
دن رات جھیلنا غم ہر روز اس طرح
مر جائیں گے اگر ہر سو یہ سڑک پڑے
کر پاؤ گے کیا گر غلطی سے بھی یہاں
اس دلِ سنساں میں تم آکر بھٹک پڑے
تنہائیوں سے یاری پھر اتنی ہو گئی
رونق مری گلی میں آکر ججھک پڑے
ساقی تمہارا مہ خانہ رو پڑے گا آج
گر ہم تمہارے ان جاموں سے بہک پڑے
یہ زندگی بھی تو اک پلِ صراط ہے
کل کوئی تھا لڑھکا اب کوئی اور لڑھک پڑے

0
49