وحشتِ دل یہ کئی آلام لیے پھرتی ہے |
دوں کیا نام اسے یہ کئی نام لیے پھرتی ہے |
جانے کتنے اندھیر میں رہتی ہو گی وہ صدا بھی |
جو میرے اس دل کا پیام لیے پھرتی ہے |
تک تک کر یہ اندھیرا اس قابل میں بنا ہوں |
چشم یہ ویرانی کا سلام لیے پھرتی ہے |
ابتدا میری مجھ سے پوچھتی ہے اکثر کے |
میری اداسی کوئی انجام لیے پھرتی ہے؟ |
یہ جو خاموشی کا سماں تمہیں مجھ میں ہے دکھتا |
اندر یہ برپا کہرام لیے پھرتی ہے |
میری اس گردن کے مقابل میں یہاں پر اب |
مایوسی خنجر بے نیام لیے پھرتی ہے |
حد تو یہ ہے کہ اب یاں کوئی خوشی بھی آکر |
اگلے کسی غم کا پیغام لیے پھرتی ہے |
یہ لا بیاں سے جو افسانے ہیں میرے سب |
انکی ہر سطر گردشِ ایام لیے پھرتی ہے |
معلومات