اب وہ کوچے نہیں اب وہ بستی نہیں
اب وفائیں یہاں پر پنپتی نہیں
دل دھڑکتا نہیں سانس رکتی نہیں
اب کوئی بات دل میں ہے چھبتی نہیں
اب تو بکتا ہیں سب راہ و بازار میں
اب وہ جادو کہاں کوچۂ یار میں
اب پرانے ہوئے تھے جو سارے فُسوں
اب کہاں درد اُٹھتے ہیں عِشّاق کو
اب کہ لازم ہے کے ہو یہاں اب سُکوں
اب تو توڑے ہیں سب عہد و میثاق کو
اب کہ لازم ہے کے خون بہتا رہے
اب کہ لازم ہے کے درد رہتا رہے
اب تو لازم وَ ملزوم کی جنگ ہے
اب تو ساقی کے بھی جام خالی ہوئے
اب کسی پر یہ دنیا کہاں تنگ ہے
اب تو زخموں کے مرہم سوالی ہوئے
اب کہ لازم ہے کے ہجرتیں ہو یہاں
اب کہاں وصل ہو تم کہاں ہم کہاں

57