اب وہ کوچے نہیں اب وہ بستی نہیں |
اب وفائیں یہاں پر پنپتی نہیں |
دل دھڑکتا نہیں سانس رکتی نہیں |
اب کوئی بات دل میں ہے چھبتی نہیں |
اب تو بکتا ہیں سب راہ و بازار میں |
اب وہ جادو کہاں کوچۂ یار میں |
اب پرانے ہوئے تھے جو سارے فُسوں |
اب کہاں درد اُٹھتے ہیں عِشّاق کو |
اب کہ لازم ہے کے ہو یہاں اب سُکوں |
اب تو توڑے ہیں سب عہد و میثاق کو |
اب کہ لازم ہے کے خون بہتا رہے |
اب کہ لازم ہے کے درد رہتا رہے |
اب تو لازم وَ ملزوم کی جنگ ہے |
اب تو ساقی کے بھی جام خالی ہوئے |
اب کسی پر یہ دنیا کہاں تنگ ہے |
اب تو زخموں کے مرہم سوالی ہوئے |
اب کہ لازم ہے کے ہجرتیں ہو یہاں |
اب کہاں وصل ہو تم کہاں ہم کہاں |
معلومات