فرض کرو ہم دونوں اب بھی خوش رہتے ہوں
تیری یاد میں یہ آنسو نہیں اب بہتے ہوں
فرض کرو میں ویسے ہی اب تک ہنستا ہوں
سو جاتا ہوں شب کو اندھیرا نہیں تکتا ہوں
فرض کرو ہم اب تک گیت اپنا گاتے ہیں
سنکر جسکو یہ آنسو مرے اب بہہ جاتے ہیں
فرض کرو تنہائی میری یہ جھوٹی ہو
اس سپنے میں نیند یہ میری نا ٹوٹی ہو
فرض کرو دنیا اب تک ویسی رنگیں ہو
فرض کرو یہ سب بس اک خوابِ غمگیں ہو

0
101