کیوں کروں غم کی میں پھر اشاعتیں اپنی
آ چکی ہیں راس یہ اذیتیں اپنی
کب کہا میں نے کہ گلہ ہے مجھے کوئی
پاس رکھیے آپ یہ وضاحتیں اپنی
کرنا یہ کوشش کہ رستے میں نا ملیں ہم
کچھ ہیں بہت بے وفا روایتیں اپنی
درد سا اک اٹھا میرے دل میں ہمیشہ
آئینے میں جب دکھی شباہتیں اپنی
زندگی میں ہر غلط میں موڑ لے بیٹھا
لے کے کہاں جاؤں میں ندامتیں اپنی
میں ترے وعدوں ہی پر تو زندہ تھا اب تک
دیکھو پرانی ذرا عبارتیں اپنی
پھول نکلتے تھے وہ کتابوں سے اپنی
خوب ہوا کرتی تھی محبتیں اپنی
دیکھتا تھا میں تجھے جی بھر کے سو دفعہ
یاد ہیں مجھ کو وہ سب جسارتیں اپنی

0
71