یہ باغِ حسرت کے پھول پودے |
ہیں پوچھے تجھ سے کہاں گئے تھے |
سفر جو ہم نے شروع کیا تھا |
اسے یوں چھوڑے کہاں گئے تھے |
یہاں سے رستے الگ ہمارے |
یہ مجھ سے کہہ کے کہاں گئے تھے |
مجھے یوں زنداں میں قید کرکے |
یہ زنداں والے کہاں گئے تھے |
جو خواب بنتے سوئے تھے شب کو |
وہ اٹھتے اٹھتے کہاں گئے تھے |
تھی ٹھہری جن پر ہماری دنیا |
وہ سارے وعدے کہاں گئے تھے |
سنایا اپنا جو حال میں نے |
تو ہنس کے سارے کہاں گئے تھے |
معلومات