یہ باغِ حسرت کے پھول پودے
ہیں پوچھے تجھ سے کہاں گئے تھے
سفر جو ہم نے شروع کیا تھا
اسے یوں چھوڑے کہاں گئے تھے
یہاں سے رستے الگ ہمارے
یہ مجھ سے کہہ کے کہاں گئے تھے
مجھے یوں زنداں میں قید کرکے
یہ زنداں والے کہاں گئے تھے
جو خواب بنتے سوئے تھے شب کو
وہ اٹھتے اٹھتے کہاں گئے تھے
تھی ٹھہری جن پر ہماری دنیا
وہ سارے وعدے کہاں گئے تھے
سنایا اپنا جو حال میں نے
تو ہنس کے سارے کہاں گئے تھے

0
59