خوب میں نے بھی حماقت کی ہے
اک انساں سے رفاقت کی ہے
جو ملا ہی نہیں کیا غم اس کا
رنج میں گویا خیانت کی ہے
ہنس پڑا میں پھر یوں سرِ بازار
جیسے خود سے بغاوت کی ہے
بہنے دو گر بہہ رہا ہے لہو
زخموں کی خود ہی کفالت کی ہے
اہلِ جہاں حیراں ہے کہ میں نے
ظلم کی تیرے وکالت کی ہے
اپنی ہی غلطی گن وا بیٹھا
خوب یہ تجھ سے شکایت کی ہے
زخموں سے چور ہو کر بھی میں نے
وار کی تیرے حمایت کی ہے
تاریکی سے بات میں نے پھر
ہجر کی تیرے بدولت کی ہے
غم مرے جانے گا کہاں کوئی
کب میں نے ان کی اشاعت کی ہے

0
51