غمِ عشق میں مارا ہوا لاچار ہوں میں
اِک ہارے ہوئے لشکر کا سالار ہوں میں
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا زندہ مزار ہوں میں
اِس رنگین سی دنیا میں بے کار ہوں میں
ایک نا چیز ہوں، اِک انساں بیزار ہوں میں
اِک خاموش سی خواہش کا اظہار ہوں میں
تو نے جو دیکھا تو خوشیوں سے نہار ہوں میں
ورنہ تنہائی کے غم سے دو چار ہوں میں
اُجڑے رستے پہ ویراں سا بازار ہوں میں
رنج و غم کا اونچا سا مینار ہوں میں
لفظوں کے اس دلدل میں معمار ہوں میں
پلکوں سے بہتی اِک خوں کی قطار ہوں میں
میر کے درد میں لپٹے ہوئے اشعار ہوں میں
آگ کا دریا ہوں، اشکوں کا گلزار ہوں میں

70