اب کہاں سوزِ دل کا اثر ہوتا ہے
اشک گنتے ہوئے دن بسر ہوتا ہے
ہو گیا عرصہ اِک گلہ بھی نا کیا
حالِ دل اپنا اب مختصر ہوتا ہے
کیا کہا چھوڑ دوں آسماں تکنا میں؟
اُس سے ہی تو بسر ہر پہر ہوتا ہے
ہم کو اندازہ تھا ہجر اگر ہوتا ہے
نیند اُڑ جاتی ہے دل کتر ہوتا ہے
تھی مُزیَّن کبھی یہ نظر خوابوں سے
اب یہاں صرف اشکوں کا گھر ہوتا ہے

0
163