آنسو بہا کے سویا ہوں
آج میں پھر سے کھویا ہوں
بیجِ بہار ہو کر بھی میں
ریگستاں میں بویا ہوں
صبح کی طرح جو روشن تھا
تاریکی میں سمویا ہوں
موتی کے ہار سے ٹوٹ کے میں
پتھروں میں پرویا ہوں
آسماں کے ساتھ آج میں بھی
آہیں بھر کے رویا ہوں
خود سے شکایت تو یوں کی
گویا اُن سے گویا ہوں
ان آنکھوں کی مستی میں
نا جانے کہاں کھویا ہوں
خوں ٹپکا کر آنکھوں سے
اس سے ہی چہرہ دھویا ہوں

0
80