زندہ بھی ہوں میں یا بس سانسیں ہی چلی ہیں
خوشیوں کی میرے باغ میں کلیاں نا کھلی ہیں
کتنے شور سے محفلِ دنیا یہ رواں ہے
جیسے ہر غم کی یہاں بس یہی اِک دوا ہے
رکھا بھی اس میں کچھ دھوکے کے سوا ہے؟
مجھ کو تو یہ سنسان سی راتیں ہی بھلی ہیں
زندہ بھی ہوں میں یا بس سانسیں ہی چلی ہیں
جو بھی آیا یہاں پہ کبھی خوش نا گیا ہے
مانو کے قید میں ہم نے یہاں خود کو لیا ہے
ُپھر بھی تو نے جامِ بے وفائی کو پیا ہے
کربوں کی لڑیاں اس کے آنگن میں پلی ہیں
زندہ بھی ہوں میں یا بس سانسیں ہی چلی ہیں
صبح و شام تو نے روتے میں گزارے ہیں
ہر سو یہاں بس دھوکے کے نظارے ہیں
پھر بھی عزیز تجھے دنیا کے سہارے ہیں
کالکیں ساری اسکے چہرے پہ مَلی ہیں
زندہ بھی ہوں میں یا بس سانسیں ہی چلی ہی

0
94