اک زمانہ لگا زخم بھرنے میں اب
گویا آسانیاں ہیں بس مرنے میں اب
گرد آلود ہیں سسکیاں اب مری
مشکلیں پڑ رہیں آہ کرنے میں اب
کھو چکا وقت کی ساری سدھ بدھ میں یوں
دن گزر جاتا ہے شب بسرنے میں اب
میں بھی بہہ جاؤں گا درد کی ریت میں
خوف آتا ہے مجھ کو بکھرنے میں اب
تیرے کوچوں سے اب دوریاں ہی سہی
ہم گزر جائیں گے بس گزرنے میں اب
کاش معلوم ہوتا یہ وعدوں سے قبل
کتنی آسانیاں ہیں مکرنے میں اب
عکس اتنا مرا ہو چکا اجنبی
ایک آفت پڑے گی سنورنے میں اب

0
62