میں نے فرض کیا کل رات بہت
بکھرے تھے کچھ جذبات بہت
یہ فرض کیا تو میری ہے
پھر یاد کیے لمحات بہت
یہ فرض کیا کے میں اب بھی
یوں ہنستا ہوں بے بات بہت
میں آنسو روک کے بیٹھا تھا
پھر برسی یاں برسات بہت
ہم دونوں پھر اس بارش میں
تھے بھیگے ساری رات بہت
یہ فرض کیا کے صبح تلک
تھی خوشیوں کی بہتات بہت
میں جاگا تھا تو میری تھی
ان خوابوں کے بھی بعد بہت
تو دیکھ کہ مجھ کو مسکائی
تھے گونجے پھر نغمات بہت
پر آنکھ کھلی تو کھو بیٹھا
وہ دنیا جو تھی ساتھ بہت
جب لوتا اپنی دنیا کو تو
نا تو تھی نا ہی پرچھائی
اک کمرا تھا بس خالی سا
اور ساتھ میں میری تنہائی
مایوس فضا کچھ ایسی تھی
دیواریں بھی تھی مرجھائی
اور کاغذ کے کچھ پنوں پر
تھی لکھی میری سب رسوائی
کیسے تھے میرے یہ زخم اور
کیسی تھی ان کی گہرائی
کیسے میں کھویا بیٹھا تھا
تاریکی میں پھر بینائی
کیسے پھر میرے رستے سے
تھی خوشیاں ساری کترائی
کیسے میں ہارا بیٹھا تھا
کیسی تھی میری پسپائی

52