یہ سودا ہوا تھا ان آنکھوں سے میرا |
یہ جو اشکِ رواں ہیں یوں سالوں سے میرا |
اب ان کو بھی تھوڑا قرار آ جائے گا |
سوکھے گا چہرہ اشک کی موجوں سے میرا |
اب یہ آنکھیں بھی سو جائیں گی راتوں کو |
درد اٹھے گا نا اب یوں سینوں سے میرا |
کھوئی مسکاں یہ چہرے کی گھر آجائے گی |
خوں رواں نا ہوگا اب ہونٹوں سے میرا |
ہجر کی راتوں کا اب ہم ذکر کیا کریں گے |
درد گیا نہیں آج بھی زخموں سے میرا |
ان رنگینیوں میں وہ ہوتا نہیں اندھیرا |
بس یہی ایک شکوہ ہے رنگوں سے میرا |
لپٹے پڑے تھے آخری دم تک مجھ سے وہ |
گہرا تھا اتنا رشتہ اشکوں سے میرا |
معلومات