Circle Image

Dabir Abbas

@dabirshah

ہیں دشتِ جنوں اور دشتِ بلا مجنوں کو کم
یہ دشت نوردی قائم ہے تا دشتِ عدم
افلاک پہ ہو مقبول زمین سے بڑھ کر وہ
کریں عشق کہانی ایک رقم کچھ ایسی ہم
وہ بھی ہیں حسیں، انکار نہیں لیکن صاحب
غلمان کہاں، حوران کہاں، جوں میرے صنم

0
3
یارانِ پریشان، خدا خیر کرے!
ہر سمت ہے طوفان، خدا خیر کرے!
ہمت سے ذرا اور کہ یہ منزلِ شوق
ہو جائے گی آسان، خدا خیر کرے!
حق چھوڑ کے نادان تُو کس سمت چلا
اے حضرتِ انسان، خدا خیر کرے!

0
3
عمرِ بالغ میں سِن نہیں ہوتا
عشق کا قابو جِنّ نہیں ہوتا
دن گزرتا نہیں کبھی، تو کبھی
رات رہتی ہے، دن نہیں ہوتا
صبر ہی ہے علاجِ غم لیکن
کیا کروں آپ بن نہیں ہوتا

0
3
نہ ڈھونڈو ہوش والوں میں دلِ برباد والے
نہیں ملنے کے اب تم کو "جنوں آباد" والے
طریقے سب کو آتے ہیں ستم کے لاکھ لیکن
کہاں آئیں کسی کو اُس ستم ایجاد والے
کہا اتنا کہ ہم ہی ہیں حقیقت میں حقیقت
لگے الزام ہم پر پھر بہت الحاد والے

0
5
مگر مرا ہے حقیقت میں گھر "جنوں آباد"
میں عارضی یہاں شَہْرِ خِرَد میں رہتا ہوں
ہے سڑک کوئی جو اُس کے شہر سے
ہو کے جاتی ہو "جنوں آباد" تک؟
ایک ہی وہ شخص تھا اور جب سے وہ رخصت ہوا
"رونقِ شہرِ جنوں آباد" کم ہونے لگی

0
6
اب تری دید بھی میسر ہے
وحشتِ عید کم نہیں پھر بھی
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
2
زندگی عجلت نویسی کا قلم ہونے لگی
بے بسی کی داستاں ہر دم رقم ہونے لگی
دیکھ بیٹھے گفتگو کو عزتیں دے کر وہ جب
خامشی ان کی نظر میں محترم ہونے لگی
دشمنی میں دوستی کا ہی مزہ آنے لگا
یاد کی شعلہ زنی موجِ الم ہونے لگی

0
3
قابو میں دل کو رکھ کے یہ سن بات آخری
شاید کہ ہو رہی ہو ملاقات آخری
دل کو یقین ہے کہ یہ ہے رات آخری
لکھنی ہیں دل کے ہاتھ سے آیات آخری
رہ جائے اب نہ حسرتِ حالات آخری
سو کیجیے ناں دل سے مدارات آخری

0
6
مجھ کو محض نفرت ہے وقت کے اسیروں سے
یا مجھے ہے بیزاری خاص بد ضمیروں سے
روشنی ہیں سورج کی آپ، مَیں سیاہی ہوں
ہے مرا تقابل کیا آپ سے امیروں سے
زندگی کے رستے پر دیکھ بھال کر چلنا
واسطہ نہ پڑ جائے آپ کا شریروں سے

0
4
یعنی تجھ کو رنج ہے اس کا "جو کچھ اس کے ساتھ ہوا"
اس کا کیوں احساس نہیں ہے "جو کچھ میرے ساتھ ہوا"

0
6
افسردگی میں ان دنوں ہے انجمن تمام
ہیں دل گرفتہ حال پہ ہم "ہم سخن" تمام
شہرِ خرد میں ایک جو شمعِ جنون تھی
اس کو بجھا گئے ہیں مرے ہم سخن تمام
چہرے سبھی اداس ہیں، آنکھیں بھری بھری
لگتا ہے جیسے ختم ہوا حسنِ فن تمام

0
2
خواب آنکھوں میں سُلگتے ہیں، مچل جاتے ہیں
اشک بے ساختہ آنکھوں سے نکل جاتے ہیں
کچھ ترستے ہیں ملاقات کو ہم سے، ہم دم!
اور کچھ لوگ ہمیں دیکھ کے جل جاتے ہیں
ہم نشیں! وقت سے، انسان سے ڈرنا کیسا؟
جن کو رستے میں بدلنا ہو، بدل جاتے ہیں

0
5
خواب آنکھوں میں سُلگتے ہیں، مچل جاتے ہیں
اشک بے ساختہ آنکھوں سے نکل جاتے ہیں
کچھ ترستے ہیں ملاقات کو ہم سے، ہم دم!
اور کچھ لوگ ہمیں دیکھ کے جل جاتے ہیں
ہم نشیں! وقت سے، انسان سے ڈرنا کیسا؟
جن کو رستے میں بدلنا ہو، بدل جاتے ہیں

0
6
وفائیں بے نظیر تھیں وہ پہلے پانچ سال تو
کہ باہمی اسیر تھیں وہ پہلے پانچ سال تو
وہ دن کہ روشنی بھرا، وہ رات چاندنی بھری
مسرتیں کثیر تھیں وہ پہلے پانچ سال تو
وہ قہقہے، وہ مستیاں، وہ بے خودی کے سلسلے
کہ چاہتیں شریر تھیں وہ پہلے پانچ سال تو

0
5
زنجیرِ وقت و بُعد سے آزاد ہو گیا
میں روشنی کے شہر میں آباد ہو گیا
عمریں ہوئیں تمام، تعدد نہ مل سکا
میں بٹ کے موج شور میں برباد ہو گیا
تجھ میں زمین زاد کشش ہی عجیب تھی
اس وصلِ اتفاق سے دل شاد ہو گیا

0
3
ہم نے ہر اک خیال کو تجسیم کر دیا
تجسیم کر کے قابلِ تعظیم کر دیا
تعمیر کی لگن میں دل و جان بیچ کر
ویران گھر کو آٹھویں اِقْلِیم کر دیا
رہتے تھے ایک گھر میں وہ کیا اتفاق سے
تقدیر نے مگر انھیں تقسیم کر دیا

0
4
بر لَبِ لَب، زیرِ لَب کوئی نہیں
"اور خوشیوں کی طَلَب کوئی نہیں"
پاس میرے، اب ترے مِلنے کے بعد
خوش نہ ہونے کا سَبَب کوئی نہیں
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
6
سورج کا وقتِ شام سمندر میں ڈوبنا
اک خوابِ نا رسا کا مقدر میں ڈوبنا
آتا ہے دیکھنا تو بہت سوں کو یاں مگر
آتا نہیں ہے ایک کو منظر میں ڈوبنا
طوفان میں کہ جیسے کسی ایک ناؤ کا
دل کا ادائے ناز ستمگر میں ڈوبنا

0
2
ہر زخم کے خرام میں رہتا ہے لال رنگ
اشکوں کے اہتمام میں رہتا ہے لال رنگ
دکھ، درد، آہ، کرب، الم، چیخ اور اشک
تحریر میں،کلام میں رہتا ہے لال رنگ
غصے میں لال پیلے ہوئے میرے نام پر
یعنی کہ میرے نام میں رہتا ہے لال رنگ

0
3
دلوں پہ حکمرانی تک نہیں ہے
وفا کی ترجمانی تک نہیں ہے
فقط عہدِ جوانی تک نہیں ہے
محبت اک کہانی تک نہیں ہے
کبھی دل میں ہزاروں خواہشیں تھیں
مگر اب تو نشانی تک نہیں ہے

0
4
خیالِ خام سے ڈرنا، جواں جذبات سے ڈرنا
عذابِ شام سے ڈرنا، اندھیری رات سے ڈرنا
عطاؤں سے کبھی ڈرنا، کبھی آفات سے ڈرنا
خزاؤں سے کبھی ڈرنا، کبھی برسات سے ڈرنا
شکستِ خواب سے ڈرنا، کبھی نغمات سے ڈرنا
سرابِ شوق سے ڈرنا، گناہِ ذات سے ڈرنا

0
3
دل کے کمرے میں گونجے اک صدمے کی آواز
رات کی خاموشی میں جیسے پنکھے کی آواز
ضرب لگانے والے کو تو آئی نہیں شاید
شہزادی نے محل میں سن لی تیشے کی آواز
لیکن ساری آوازیں ہیں اس کی ہی تقلید
تجھ کو شاید نہ بھاتی ہو، کَوّے کی آواز

0
4
دل کے کمرے میں گونجے اک صدمے کی آواز
رات کی خاموشی میں جیسے پنکھے کی آواز
ضرب لگانے والے کو تو آئی نہ شاید
شہزادی نے محل میں سن لی تیشے کی آواز
لیکن ساری آوازیں ہیں اس کی ہی پیرو
تجھ کو شاید نہ بھاتی ہو، کَوّے کی آواز

0
3
دل کے کمرے میں گونجے اک صدمے کی آواز
رات کے خاموشی میں جیسے پنکھے کی آواز
ضرب لگانے والے کو تو آئی نہ شاید
شہزادی نے محل میں سن لی تیشے کی آواز
لیکن ساری آوازیں ہیں اس کی ہی پیرو
تجھ کو شاید نہ بھاتی ہو، کَوّے کی آواز

0
5
دل کے کمرے میں گونجے اک صدمے کی آواز
رات کے خاموشی میں جیسے پنکھے کی آواز
ضرب لگانے والے کو تو آئی نہ شاید
شہزادی نے سن لی لیکن تیشے کی آواز
لیکن ساری آوازیں ہیں اس کی ہی پیرو
تجھ کو شاید نہ بھاتی ہو، کَوّے کی آواز

0
6
دل کے کمرے میں گونجے اک صدمے کی آواز
رات کے خاموشی میں جیسے پنکھے کی آواز
ضرب لگانے والے کو تو آئی نہ شاید
شہزادی نے سن لی لیکن تیشے کی آواز
لیکن ساری آوازیں ہیں اس کی ہی پیرو
تجھ کو شاید نہ بھاتی ہو، کَوّے کی آواز

0
7
ایک مندر ہوں مَیں، وہ داسی ہے
میرے اندر فقط اُداسی ہے
یہ ہے فرمانِ حیدرِ کرار
خود شناسی خدا شناسی ہے
اُس کو پہچاننا نہیں مشکل
اک نشانی تو خوش لباسی ہے

0
4
یاد اُس کی عذاب کی صورت
چہرہ جس کا گلاب کی صورت
دل مرا ایک میکدہ جس میں
درد خالص شراب کی صورت
دوپہر تھی جنابِ سایہ گم
دوستی اک سراب کی صورت

0
5
ایک مندر ہوں مَیں، وہ داسی ہے
میرے اندر فقط اُداسی ہے
یہ ہے فرمانِ حیدرِ کرار
خود شناسی خدا شناسی ہے
اُس کو پہچاننا نہیں مشکل
اک نشانی تو خوش لباسی ہے

0
6
عشق تھا شاید حدِ میعاد تک
اب ہمیں آتے نہیں وہ یاد تک
مانتے ہیں اُس کے احکامات بھی
جو نہیں سنتے مری فریاد تک
دل جلانے سے ہوا تھا جو شروع
آن پہنچا سلسلہ اسناد تک

0
2
عشق تھا شاید حدِ میعاد تک
اب ہمیں آتے نہیں وہ یاد تک
مانتے ہیں اُس کے احکامات بھی
جو نہیں سنتے مری فریاد تک
دل جلانے سے ہوا تھا جو شروع
آن پہنچا سلسلہ اسناد تک

0
4
عشق تھا شاید حدِ میعاد تک
اب ہمیں آتے نہیں وہ یاد تک
مانتے ہیں اُس کے احکامات بھی
جو نہیں سنتے مری فریاد تک
دل جلانے سے ہوا تھا جو شروع
آن پہنچا سلسلہ اسناد تک

0
4
عشق تھا شاید حدِ میعاد تک
اب ہمیں آتے نہیں وہ یاد تک
مانتے ہیں اُس کے تو احکام بھی
جو نہیں سنتے مری فریاد تک
دل جلانے سے ہوا تھا جو شروع
آ وہ پہنچا سلسلہ اسناد تک

0
3
عشق تھا شاید حدِ میعاد تک
اب ہمیں آتے نہیں وہ یاد تک
مانتے ہیں اُس کے تو احکام بھی
جو نہیں سنتے مری فریاد تک
دل جلانے سے ہوا تھا جو شروع
آ وہ پہنچا سلسلہ اسناد تک

0
3
عشق تھا شاید حدِ میعاد تک
اب ہمیں آتے نہیں وہ یاد تک
مانتے ہیں اُس کے تو احکام بھی
جو نہیں سنتے مری فریاد تک
دل جلانے سے ہوا تھا جو شروع
آ وہ پہنچا سلسلہ اسناد تک

0
3
کہاں یہ قرب میسر لگاوٹوں سے ہے؟
سفر طویل کی گہری تھکاوٹوں سے ہے
کوئی بھی بات تمہاری بری نہیں لگتی
فقط گریز مجھے ان بناوٹوں سے ہے
مجھے غرض نہ وہاں کی نفس پرستی سے
نہ تیرے شہر کی جھوٹی ملاوٹوں سے ہے

0
4
دور کہیں گونجی شہنائی
آنکھ یہاں اپنی بھر آئی
حال ہمارا اس نے پوچھا
نیند پلک سے جا ٹکرائی
اس کا نام بتا سکتے ہو؟
جس کے پیچھے عمر گنوائی

0
4
سکون دل کو کہیں ایک پل نہیں آیا
میں آج گھوم کے ساری تری زمیں آیا
وہ حسن تیرے تخیل میں آ نہیں سکتا
کہ آج جس کو میں دے کے دل اور دیں آیا
جو ایک بار ملا تھا فراق سے پہلے
سکون پھر وہ دوبارہ کہیں نہیں آیا

0
5
بات کرنے کو میسر جسے تنہائی ہو
کیا بھلا اس سے بڑی اور پذیرائی ہو
اس پہ خود سوچ کہ کیا وحشتِ تنہائی ہو
جس کو تصویر سے اپنی نہ شناسائی ہو
دل ہو سینے میں مگر یاد نہ آئے تیری
آئینہ آنکھ میں ہو اور نہ بینائی ہو

0
6
بات کرنے کو میسر جسے تنہائی ہو
کیا بھلا اس سے بڑی اور پذیرائی ہو
اس پہ خود سوچ کہ کیا وحشتِ تنہائی ہو
جس کو تصویر سے اپنی نہ شناسائی ہو
دل ہو سینے میں مگر یاد نہ آئے تیری
آئنہ آنکھ میں ہو اور نہ بینائی ہو

0
7
اسی لیے تو سُکُونِ اَبَد میں رہتا ہوں
میں اپنی آگ کے شعلے کی حد میں رہتا ہوں
یہ پانچ، بارہ یہ چودہ یہ کیا بَہَتَّر ہے؟
میں محو ایک خیالِ عدد میں رہتا ہوں
فقیہہِ شہر نے مجھ پر یہ اِفْتِرا باندھا
میں اپنے شوق کی زندانِ بد میں رہتا ہوں

0
5
اسی لیے تو سُکُونِ اَبَد میں رہتا ہوں
میں اپنی آگ کے شعلے کی حد میں رہتا ہوں
یہ پانچ، بارہ یہ چودہ یہ کیا بَہَتَّر ہے؟
میں محو ایک خیالِ عدد میں رہتا ہوں
فقیہہِ شہر نے مجھ پر یہ اِفْتِرا باندھا
میں اپنے شوق کے زندانِ بد میں رہتا ہوں

0
1
اسی لیے تو سُکُونِ اَبَد میں رہتا ہوں
میں اپنی آگ کے شعلے کی حد میں رہتا ہوں
یہ پانچ، بارہ یہ چودہ یہ کیا بَہَتَّر ہے؟
میں محو ایک خیالِ عدد میں رہتا ہوں
فقیہہِ شہر نے مجھ پر یہ اِفْتِرا باندھا
میں اپنے شوق کی زندانِ بد میں رہتا ہوں

0
9
اسی لیے تو سُکُونِ اَبَد میں رہتا ہوں
میں اپنی آگ کے شعلے کی حد میں رہتا ہوں
یہ پانچ، بارہ یہ چودہ یہ کیا بَہَتَّر ہے؟
میں محو ایک خیالِ عدد میں رہتا ہوں
فقیہہِ شہر نے مجھ پر یہ اِفْتِرا باندھا
میں اپنے شوق کی زندانِ بد میں رہتا ہوں

0
6
عقل ہو فعلِ عشق پہ جیسے حیراں و نالاں
ایسے بے کل حیرت سے دیکھیں مجھ کو ناداں
کون کہے حالات ہمیشہ رہتے ہیں یکساں؟
ہوتے ہیں صحراؤں میں جو ٹھنڈے نخلستاں
دیکھ فلک پہ چمک رہا ہے ایسے سورج آج
جیسے دیکھ کے نکلا ہے یہ تابِ رخِ جاناں

0
3
اگر چلتی محبت میں درایت
تو پھر ہوتا کبھی شکوہ شکایت
انانا و دموزی سے چلی ہے
محبت میں خسارے کی روایت
کبھی پایا نہیں، دل نے جو چاہا
ہوئی حسرت محبت میں عنایت

0
9
تیرے سفر کی خیر ہو، تو نے وہ رہنما چنا
جو کہ چلا تمام عمر، سَمْتِ خِلَافٍ مُنْتَہا
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
2
بس ایک تُو ہی غم زدہ نہیں ہے اس جہان میں
یہاں تو سب کی کٹ رہی ہے عمر امتحان میں
تُو آفتاب ہم کو اس نظر سے دیکھتا ہے کیوں
کیا ہماری روشنی نہیں ہے آسمان میں؟
جو روشنی تُو بانٹ دے وہ لوٹتی نہیں کبھی
ہمیں ملے کئی گنا عطا سے بڑھ کے دان میں

0
3
بس ایک تُو ہی غم زدہ نہیں ہے اس جہان میں
یہاں تو سب کی کٹ رہی ہے عمر امتحان میں
تُو آفتاب ہم کو اس نظر سے دیکھتا ہے کیوں
کیا ہماری روشنی نہیں ہے آسمان میں؟
جو روشنی تُو بانٹ دے وہ لوٹتی نہیں کبھی
ہمیں ملے کئی گنا عطا سے بڑھ کے دان میں

0
2
بس ایک تُو ہی غم زدہ نہیں ہے اس جہان میں
یہاں تو سب کی کٹ رہی ہے عمر امتحان میں
تُو آفتاب ہم کو اس نظر سے دیکھتا ہے کیوں؟
کیا ہماری روشنی نہیں ہے آسمان میں!
جو روشنی تو بانٹ دے وہ لوٹتی نہیں کبھی
ہمیں ملے کئی گنا عطا سے بڑھ کے دان میں

0
3
صاف نیلا آسماں اور ایک گدھ
جیسے بحرِ بے کراں اور ایک گدھ
کب سے دونوں خامشی سے ہم کلام
اک درختِ ناتواں اور ایک گدھ
دشتِ وحشت تیسرا ہوں ایک میں
بے کفن اک کارواں اور ایک گدھ

0
2
تمام قول ہی میرے جب اس نے ہلکے لیے
تو میں نے بدلے بھی اس سے بدل بدل کے لیے
فقط گلے ہی لگایا نہیں ہے میں نے اسے
ستم ظریف کے بوسے بھی میں نے بلکہ لیے
تمام کا ہی تمام آج اس نے وار دیا
ذرا بھی پیار بچایا نہ اس نے کل کے لیے

0
7
تمام قول ہی میرے جب اس نے ہلکے لیے
تو میں نے بدلے بھی اس سے بدل بدل کے لیے
فقط گلے ہی لگایا نہیں ہے میں نے اسے
ستم ظریف کے بوسے بھی میں نہ بلکہ لیے
تمام کا ہی تمام آج اس نے وار دیا
ذرا بھی پیار بچایا نہ اس نے کل کے لیے

0
8
شہرِ شکست و ریخت کے سب بجھ گئے چراغ
لیکن ہمارے ہاتھ پہ جلتے رہے چراغ
ان سے جو دور جاؤں تو رکتی ہے میری سانس
شاید کہ زندگی ہیں مری یہ دیے، چراغ
بازارِ دل فریب میں کیا کچھ نہ تھا مگر
ہم نے حیات بیچ کے دو لے لیے چراغ

0
8
شہرِ شکست و ریخت کے سب بجھ گئے چراغ
لیکن ہمارے ہاتھ پہ جلتے رہے چراغ
رکتی ہے میری سانس، جو بجھنے اگر لگیں
شاید کہ زندگی ہیں مری یہ دیے، چراغ
بازارِ دل فریب میں کیا کچھ نہ تھا مگر
ہم نے حیات بیچ کے دو لے لیے چراغ

0
7
ایک نیلا آسماں اور ایک گدھ
جیسے بحرِ بے کراں اور ایک گدھ
کب سے دونوں خامشی سے ہم کلام
اک درختِ ناتواں اور ایک گدھ
دشتِ وحشت تیسرا ہوں ایک میں
بے کفن اک کارواں اور ایک گدھ

0
7
پردہ ہے نہ اب بیچ، حیا ہے نہ حجابات
ہیں عشق سیاحت کے یہ پر کیف مقامات
پلکوں پہ جمے اشکوں سے دن رات شکایات
یہ پیار میں ہوتی ہیں بچھڑنے کی علامات
یادوں کے درختوں پہ اُداسی کے پرندے
بیٹھے ہیں کہ جیسے ہیں یہی ان کے مکانات

0
3
ہوا میں اڑتے پرندے کے دو پروں کی طرح
کسی مقام پہ موجود دو گھروں کی طرح
مرے نصیب کے مالک تری اجازت سے
میں راستوں میں بکھر جاؤں منظروں کی طرح
عطا کیے ہیں جو تم نے مجھے وہ سارے درد
میں شاعری میں لکھوں گا سخنوروں کی طرح

0
5
یہ ہے درست بشر بے وفا بھی ہوتے ہیں
بشر کے روپ میں لیکن خدا بھی ہوتے ہیں
ہے تجھ کو یار جدائی سے ہی اگر مطلب
کسی مقام پہ جا کر جدا بھی ہوتے ہیں
بجا ہے وصل کی اپنی الگ ہی راحت ہے
مگر یہ وصل کبھی بد مزہ بھی ہوتے ہیں

0
5
فقط نہیں کہ گل و رنگ تجھ سے نالاں ہیں
درخت، سایہ، پرندے سبھی پریشاں ہیں
یہ تھر، عرب تو ہیں کیا، کچھ نہیں صحارا بھی
جو میرے دل میں بے آب و گیا بیاباں ہیں
جو گل فروش تھے کل، آج میرِ محفل ہیں
جو بادشاہ تھے کل، آج حاشیہ خواں ہیں

0
9
فقط نہیں کہ گل و رنگ تجھ سے نالاں ہیں
درخت، سایہ، پرندے سبھی پریشاں ہیں
یہ تھر، عرب تو ہیں کیا، کچھ نہیں صحارا بھی
جو میرے دل میں بے آب و گیا بیاباں ہیں
جو گل فروش تھے کل، آج میرِ محفل ہیں
جو بادشاہ تھے کل، آج حاشیہ خواں ہیں

0
5
اتار پھینکیے دل کے دماغ سے ڈر کو
خدا کے واسطے اب تو اٹھائیے سر کو
خود اپنے قلب و نظر کو سنبھال کر رکھیے
کبھی نہ دیجیے الزام حسنِ خود سر کو
بہت سُواد ہمیں بھی ہے آ رہا اس میں
کہ اور دیجیے کرنے ستم، ستم گر کو

0
4
ستم ظریف کے قولِ محال سے نکلو
سرابِ عہدِ وفا کے خیال سے نکلو
حصارِ ذات میں الجھے ہوئے حسیں لوگو!
شکستہ ذات کے جھوٹے جمال سے نکلو
یہ اشتعال کوئی سانحہ نہ لے آئے
تم اشتعال کے اس احتمال سے نکلو

0
7
متروکِ محبت ہوں، گلہ کیسے کروں؟
دل یاد سے پر اُس کی رِہا کیسے کروں؟
مشکل سے کیا نور جدا آنکھ سے اب
ٹوٹے ہوئے خوابوں کو جدا کیسے کروں؟
یہ ساری کہانی ہے پسِ ترکِ وفا
اب تو ہی بتا اُس سے وفا کیسے کروں؟

0
4
مسکرائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
جگمگائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
یاد کے باب میں کچھ زخم ابھی باقی ہیں
بھول جائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
یہ جو اب لوگ مجھے چھوڑ رہے ہیں سارے
لوٹ آئیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی

0
42
وقت گزرا مختصر سا گو تمہارے شہر میں
دل ہوا بے حال پر رو رو تمہارے شہر میں
کب لکھی ہے داستاں ایسی کبھی تاریخ نے
ہم نے دیکھا ظلم ہوتے وہ تمہارے شہر میں
نام سے بھی ان کے، اپنا شہر تو واقف نہ تھا
دندناتے پھر رہے ہیں جو تمہارے شہر میں

0
6
ایسے نکل گیا ہے وہ میرے گمان سے
جیسے کماں سے تیر کہ کلمہ زبان سے
کوئی بھی سانحے سے متاثر نہیں ہوا
دونوں گزارتے ہیں بہت اطمینان سے
کچھ بھی تو میرے ساتھ انوکھا نہیں ہوا
کوئی گلہ نہیں ہے مجھے خاندان سے

0
11
پھر نہ کہنا کہ مرے دل نے ہے نادانی کی
قصۂ عشق ہے اک شکل پشیمانی کی
اب خلاف اُس کے بغاوت پہ اترنا ہو گا
کیوں کہ تقدیر نے تقسیم میں من مانی کی
دشتِ ویراں تُو جسے خواب میں دیکھے اپنے
دل اُسی منزلِ آخر پہ ہے ویرانی کی

0
5
جذبہ کوئی اور نہیں حاوی مرے دل میں
اک عشق ہی رہتا ہے مساوی مرے دل میں
وہ مجھ سے بچھڑ کے بھی جدا ہو نہیں سکتا
بہتا ہے وہی صورتِ راوی مرے دل میں
یوں یاد تری پاس بلائے مجھے گویا
بیٹھی ہو کہیں بن کے بلاوی مرے دل میں

0
5
یہ بے خودی، یہ تماشا، یہ دشتِ تنہائی
ہمیں وفائے محبت کہاں ہے لے لائی؟
وفا کے بدلے ملے درد، اشک، رسوائی
محبتوں کی یہ کیسی ہوئی پذیرائی؟
مجھے ملا نہ کوئی درد بانٹنے والا
مرے نصیب میں آئے فقط تماشائی

0
7
تجھ کو آتا ہے ہنر گھیر کے لانے والا
وہ ترے دام میں ایسے نہیں آنے والا
یوں تو لاکھوں ہیں یہاں حسن کے تپتے صحرا
پر کوئی ایک نہیں پیاس بڑھانے والا
اے سمندر! ہے تلاطم ترے اپنے اندر
میں ہوں ہر آنکھ میں طوفان اٹھانے والا

0
3
جو بے یقینی زمان و مکاں سے آتی ہے
خرد سے الجھی ہوئی داستاں سے آتی ہے
کوئی تو ہوگا جو اس کا پتا بتائے گا
یہ بے قراری مسلسل کہاں سے آتی ہے؟
یہ کس کی یاد ہے سایہ فگن خیالوں میں؟
یہ کس کی چاپ دلِ ناتواں سے آتی ہے؟

0
5
کچھ اس طرح سے وہ رسمِ وفا نبھاتی ہے
کہ ایک زخم نیا آئے دن لگاتی ہے
یہ بے قرار طبیعت جدا کرے سب سے
یہ بے قرار طبیعت ستم بھی ڈھاتی ہے
تلاشِ رزق میں کٹتا ہے سارا دن میرا
پھر اس کی یاد سرِ شام سر اٹھاتی ہے

0
4
رات چودھویں کی ہے
تیرے عکس کی صورت
چاند میری آنکھوں کے
سامنے رہے گا تو
نیند کیسے آئے گی؟
ڈاکٹر دبیر عباس سید

0
3
رات چودھویں کی ہے
تیرے عکس کی صورت
چاند میری آنکھوں کے
سامنے رہے گا تو
نیند کیسے آئے گی؟

0
6
جو بے یقینی زمان و مکاں سے آتی ہے
خرد سے الجھی ہوئی داستاں سے آتی ہے
کوئی تو ہوگا جو اس کا پتا بتائے گا
یہ بے قراری مسلسل کہاں سے آتی ہے؟
یہ کس کی یاد ہے سایہ فگن خیالوں میں؟
یہ کس کی چاپ دلِ ناتواں سے آتی ہے؟

0
5
اس سے آگے گر نہ کی جائے بیاں کیسا لگے
چھوڑ دی جائے یہاں ہی داستاں کیسا لگے
یہ جو روشن ہیں ستارے دل میں تیرے پیار کے
خاک ہو جائے اگر یہ کہکشاں کیسا لگے
چلنے والے، تیرگی میں پر سکوں، اے قافلے!
بجھ اگر جائے چراغِ آسماں کیسا لگے

0
2
خزاں ہو یا بہاریں ہوں، نہ شکوہ ہے نہ نعرہ ہے
یہ جینا بھی مزے کا ہے، یہ مرنا بھی گوارا ہے
اداسی رات کی چادر میں لپٹی ساتھ چلتی ہے
اداسی سے ہوئی مدت کہ یارانہ ہمارا ہے
کبھی آوارہ گردی ہے، کبھی صحرا نوردی ہے
حقیقت میں یہ خود کو ڈھونڈنے کا کھیل سارا ہے

0
6
سبب کچھ اور کیا ہو گا جو ہم بیزار بیٹھے ہیں
محبت کا کہ ہم عجلت میں کر انکار بیٹھے ہیں
یہ دل خاموش دروازوں پہ دستک کب تلک دیتا
سو اپنے درد کو یارو کیے ہموار بیٹھے ہیں
جو حسرت دل میں پلتی تھی، وہ اب زنجیر بن بیٹھی
اسی زنجیر کے سایے میں ہم بیمار بیٹھے ہیں

0
7
سبب کچھ اور کیا ہو گا جو ہم بیزار بیٹھے ہیں
محبت کا کہ ہم عجلت میں کر انکار بیٹھے ہیں
یہ دل خاموش دروازوں پہ دستک کب تلک دیتا
سو اپنے درد کو یارو کیے ہموار بیٹھے ہیں
جو حسرت دل میں پلتی تھی، وہ اب زنجیر بن بیٹھی
اسی زنجیر کے سایے میں ہم بیمار بیٹھے ہیں

0
8
دوستی ہر ایک سے آخر چھپانی پڑ گئی
ہم کو اپنی ذات پر تہمت لگانی پڑ گئی
ہم نے کوشش تو بہت کی بات بن جائے مگر
آخرش دیوار ہی ہم کو اٹھانی پڑ گئی
روکتے تھے ہم جہاں اوروں کو جانے سے سدا
خود اُسی رستے پہ قسمت آزمانی پڑ گئی

0
7
آنسوؤں کا چشمِ غم سے اب گزر ہوتا نہیں
درد ہوتا ہے مگر کوئی اثر ہوتا نہیں
زندگی میں تلخیاں کچھ اس طرح شامل ہوئیں
اب یہ عالم ہے کہ دل بھی ہم سفر ہوتا نہیں
زخم جو خود کو لگائیں آپ اپنے ہاتھ سے
وقت ایسے زخمیوں کا چارہ گر ہوتا نہیں

7
ہم اس کی زندگی سے نکالے نہیں گئے
اس سے ہمارے روگ سنبھالے نہیں گئے
کب تک منائی جائے گی تیری بھی خیر دوست!
کیا تیرے ہم خیال اٹھا لے نہیں گئے؟
وہ تھے محبتوں کے یا دنیا کے، جو بھی تھے
ہم سے تو درد شعر میں ڈھالے نہیں گئے

0
4
اِبْتِلا اور میں مجھ کو دلِ دلگیر نہ ڈال
یہ مرے پاؤں نئے عشق کی زنجیر نہ ڈال
سیکڑوں بار کی کوشش سے ہے امید بندھی
اب نئی کوئی رکاوٹ اے عناں گیر! نہ ڈال
میری تقصیر کی دے مجھ کو سزا، اپنی خطا
مرے حصے میں مگر مورد تقصیر نہ ڈال

0
3
سبب کچھ اور کیا ہو گا جو ہم بیزار بیٹھے ہیں
محبت کا کہ ہم عجلت میں کر انکار بیٹھے ہیں
یہ دل بھی آج خاموشی کی دہلیزوں پہ ٹھہرا ہے
سو اپنے درد کو ہم بھی کیے ہموار بیٹھے ہیں
جو حسرت دل میں پلتی تھی، وہ اب زنجیر بن بیٹھی
اسی زنجیر کے سایے میں ہم بیمار بیٹھے ہیں

1
12
اس کو جزو کتاب کر کے بھی
کچھ ملا نہ ثواب کر کے بھی
مطمئن وہ نہیں ہوئے میری
زندگی کو خراب کر کے بھی
پھر بھی چاہا نہیں گیا خود کو
جب کہ دیکھا نقاب کر کے بھی

0
8