Circle Image

Dabir Abbas

@dabirshah

جذبہ کوئی اور نہیں حاوی مرے دل میں
اک عشق ہی رہتا ہے مساوی مرے دل میں
وہ مجھ سے بچھڑ کے بھی جدا ہو نہیں سکتا
بہتا ہے وہی صورتِ راوی مرے دل میں
یوں یاد تری پاس بلائے مجھے گویا
بیٹھی ہو کہیں بن کے بلاوی مرے دل میں

0
4
یہ بے خودی، یہ تماشا، یہ دشتِ تنہائی
ہمیں وفائے محبت کہاں ہے لے لائی؟
وفا کے بدلے ملے درد، اشک، رسوائی
محبتوں کی یہ کیسی ہوئی پذیرائی؟
مجھے ملا نہ کوئی درد بانٹنے والا
مرے نصیب میں آئے فقط تماشائی

0
6
تجھ کو آتا ہے ہنر گھیر کے لانے والا
وہ ترے دام میں ایسے نہیں آنے والا
یوں تو لاکھوں ہیں یہاں حسن کے تپتے صحرا
پر کوئی ایک نہیں پیاس بڑھانے والا
اے سمندر! ہے تلاطم ترے اپنے اندر
میں ہوں ہر آنکھ میں طوفان اٹھانے والا

0
3
جو بے یقینی زمان و مکاں سے آتی ہے
خرد سے الجھی ہوئی داستاں سے آتی ہے
کوئی تو ہوگا جو اس کا پتا بتائے گا
یہ بے قراری مسلسل کہاں سے آتی ہے؟
یہ کس کی یاد ہے سایہ فگن خیالوں میں؟
یہ کس کی چاپ دلِ ناتواں سے آتی ہے؟

0
5
کچھ اس طرح سے وہ رسمِ وفا نبھاتی ہے
کہ ایک زخم نیا آئے دن لگاتی ہے
یہ بے قرار طبیعت جدا کرے سب سے
یہ بے قرار طبیعت ستم بھی ڈھاتی ہے
تلاشِ رزق میں کٹتا ہے سارا دن میرا
پھر اس کی یاد سرِ شام سر اٹھاتی ہے

0
4
رات چودھویں کی ہے
تیرے عکس کی صورت
چاند میری آنکھوں کے
سامنے رہے گا تو
نیند کیسے آئے گی؟
ڈاکٹر دبیر عباس سید

0
3
رات چودھویں کی ہے
تیرے عکس کی صورت
چاند میری آنکھوں کے
سامنے رہے گا تو
نیند کیسے آئے گی؟

0
6
جو بے یقینی زمان و مکاں سے آتی ہے
خرد سے الجھی ہوئی داستاں سے آتی ہے
کوئی تو ہوگا جو اس کا پتا بتائے گا
یہ بے قراری مسلسل کہاں سے آتی ہے؟
یہ کس کی یاد ہے سایہ فگن خیالوں میں؟
یہ کس کی چاپ دلِ ناتواں سے آتی ہے؟

0
5
اس سے آگے گر نہ کی جائے بیاں کیسا لگے
چھوڑ دی جائے یہاں ہی داستاں کیسا لگے
یہ جو روشن ہیں ستارے دل میں تیرے پیار کے
خاک ہو جائے اگر یہ کہکشاں کیسا لگے
چلنے والے، تیرگی میں پر سکوں، اے قافلے!
بجھ اگر جائے چراغِ آسماں کیسا لگے

0
2
خزاں ہو یا بہاریں ہوں، نہ شکوہ ہے نہ نعرہ ہے
یہ جینا بھی مزے کا ہے، یہ مرنا بھی گوارا ہے
اداسی رات کی چادر میں لپٹی ساتھ چلتی ہے
اداسی سے ہوئی مدت کہ یارانہ ہمارا ہے
کبھی آوارہ گردی ہے، کبھی صحرا نوردی ہے
حقیقت میں یہ خود کو ڈھونڈنے کا کھیل سارا ہے

0
4
سبب کچھ اور کیا ہو گا جو ہم بیزار بیٹھے ہیں
محبت کا کہ ہم عجلت میں کر انکار بیٹھے ہیں
یہ دل خاموش دروازوں پہ دستک کب تلک دیتا
سو اپنے درد کو یارو کیے ہموار بیٹھے ہیں
جو حسرت دل میں پلتی تھی، وہ اب زنجیر بن بیٹھی
اسی زنجیر کے سایے میں ہم بیمار بیٹھے ہیں

0
6
سبب کچھ اور کیا ہو گا جو ہم بیزار بیٹھے ہیں
محبت کا کہ ہم عجلت میں کر انکار بیٹھے ہیں
یہ دل خاموش دروازوں پہ دستک کب تلک دیتا
سو اپنے درد کو یارو کیے ہموار بیٹھے ہیں
جو حسرت دل میں پلتی تھی، وہ اب زنجیر بن بیٹھی
اسی زنجیر کے سایے میں ہم بیمار بیٹھے ہیں

0
5
دوستی ہر ایک سے آخر چھپانی پڑ گئی
ہم کو اپنی ذات پر تہمت لگانی پڑ گئی
ہم نے کوشش تو بہت کی بات بن جائے مگر
آخرش دیوار ہی ہم کو اٹھانی پڑ گئی
روکتے تھے ہم جہاں اوروں کو جانے سے سدا
خود اُسی رستے پہ قسمت آزمانی پڑ گئی

0
6
آنسوؤں کا چشمِ غم سے اب گزر ہوتا نہیں
درد ہوتا ہے مگر کوئی اثر ہوتا نہیں
زندگی میں تلخیاں کچھ اس طرح شامل ہوئیں
اب یہ عالم ہے کہ دل بھی ہم سفر ہوتا نہیں
زخم جو خود کو لگائیں آپ اپنے ہاتھ سے
وقت ایسے زخمیوں کا چارہ گر ہوتا نہیں

7
ہم اس کی زندگی سے نکالے نہیں گئے
اس سے ہمارے روگ سنبھالے نہیں گئے
کب تک منائی جائے گی تیری بھی خیر دوست!
کیا تیرے ہم خیال اٹھا لے نہیں گئے؟
وہ تھے محبتوں کے یا دنیا کے، جو بھی تھے
ہم سے تو درد شعر میں ڈھالے نہیں گئے

0
4
اِبْتِلا اور میں مجھ کو دلِ دلگیر نہ ڈال
یہ مرے پاؤں نئے عشق کی زنجیر نہ ڈال
سیکڑوں بار کی کوشش سے ہے امید بندھی
اب نئی کوئی رکاوٹ اے عناں گیر! نہ ڈال
میری تقصیر کی دے مجھ کو سزا، اپنی خطا
مرے حصے میں مگر مورد تقصیر نہ ڈال

0
3
سبب کچھ اور کیا ہو گا جو ہم بیزار بیٹھے ہیں
محبت کا کہ ہم عجلت میں کر انکار بیٹھے ہیں
یہ دل بھی آج خاموشی کی دہلیزوں پہ ٹھہرا ہے
سو اپنے درد کو ہم بھی کیے ہموار بیٹھے ہیں
جو حسرت دل میں پلتی تھی، وہ اب زنجیر بن بیٹھی
اسی زنجیر کے سایے میں ہم بیمار بیٹھے ہیں

1
11
اس کو جزو کتاب کر کے بھی
کچھ ملا نہ ثواب کر کے بھی
مطمئن وہ نہیں ہوئے میری
زندگی کو خراب کر کے بھی
پھر بھی چاہا نہیں گیا خود کو
جب کہ دیکھا نقاب کر کے بھی

0
8