دلوں پہ حکمرانی تک نہیں ہے |
وفا کی ترجمانی تک نہیں ہے |
فقط عہدِ جوانی تک نہیں ہے |
محبت اک کہانی تک نہیں ہے |
کبھی دل میں ہزاروں خواہشیں تھیں |
مگر اب تو نشانی تک نہیں ہے |
وہ کل صاحب کا طوطی بولتا تھا |
اب اس کی تو کہانی تک نہیں ہے |
تو اب سے ہی دل و جاں ہار بیٹھا |
ابھی تو میں نے ٹھانی تک نہیں ہے |
کہانی ختم ہونے کو ہے اپنی |
تری آنکھوں میں پانی تک نہیں ہے |
اب اس سے اور کیا ہو گی توقع؟ |
یہ دنیا جاودانی تک نہیں ہے |
مرے شعروں میں معنی ڈھونڈتے ہو؟ |
کہ ان میں تو روانی تک نہیں ہے |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات