بات کرنے کو میسر جسے تنہائی ہو |
کیا بھلا اس سے بڑی اور پذیرائی ہو |
اس پہ خود سوچ کہ کیا وحشتِ تنہائی ہو |
جس کو تصویر سے اپنی نہ شناسائی ہو |
دل ہو سینے میں مگر یاد نہ آئے تیری |
آئینہ آنکھ میں ہو اور نہ بینائی ہو |
درد گہرا ہے مری جان! تقابل کے لیے |
کم سے کم سست سمندر کی تو گہرائی ہو |
مجھ کو اچھا نہیں لگتا ہے ادھر جانا بھی |
دشتِ غربت میں اگر ابر کی پرچھائی ہو |
دور لوگوں میں کھڑے دیکھ رہی ہے مجھ کو |
زندگی جیسے کوئی ایک تماشائی ہو |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات