| اس سے آگے گر نہ کی جائے بیاں کیسا لگے |
| چھوڑ دی جائے یہاں ہی داستاں کیسا لگے |
| یہ جو روشن ہیں ستارے دل میں تیرے پیار کے |
| خاک ہو جائے اگر یہ کہکشاں کیسا لگے |
| چلنے والے، تیرگی میں پر سکوں، اے قافلے! |
| بجھ اگر جائے چراغِ آسماں کیسا لگے |
| اے تلاشِ حق کے مارو! گر میں وقتِ انکشاف |
| تم سے یہ کہہ دوں کہ ہوں میں بے نشاں کیسا لگے |
| ساتھیو تم آ رہے ہو جس سے چھپ کے، وہ یہاں |
| سامنے جائے اگر ،آ، ناگہاں کیسا لگے |
| کیا مزہ ہو یار سارے دشمنوں سے جا ملیں |
| وقتِ طوفاں کھل نہ پائے بادباں، کیسا لگے |
| جس کو سمجھے ہو شفا، مرہم، مسیحا، روشنی |
| وہ ملے بن کے تجھے گر زہرِ جاں کیسا لگے |
| جس کے دم سے ہو منور ہر خیالِ بے قرار |
| وہ ہی ہو جائے اگر مثلِ دھواں، کیسا لگے |
| ڈاکٹر دبیر عباس سید |
معلومات