کچھ اس طرح سے وہ رسمِ وفا نبھاتی ہے |
کہ ایک زخم نیا آئے دن لگاتی ہے |
یہ بے قرار طبیعت جدا کرے سب سے |
یہ بے قرار طبیعت ستم بھی ڈھاتی ہے |
تلاشِ رزق میں کٹتا ہے سارا دن میرا |
پھر اس کی یاد سرِ شام سر اٹھاتی ہے |
وفا کے نام پہ دھوکا دیا اسے میں نے |
یہ بات دل کو مسلسل مرے رلاتی ہے |
ضرور کیجیے عزمِ وفا، مگر دیکھو |
وفا سزائیں نئی سے نئی سناتی ہے |
شبِ وصال سے یوں بھی مری نہیں بنتی |
یہ آئے جب بھی، تماشہ بنا کے جاتی ہے |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات