| فقط نہیں کہ گل و رنگ تجھ سے نالاں ہیں |
| درخت، سایہ، پرندے سبھی پریشاں ہیں |
| یہ تھر، عرب تو ہیں کیا، کچھ نہیں صحارا بھی |
| جو میرے دل میں بے آب و گیا بیاباں ہیں |
| جو گل فروش تھے کل، آج میرِ محفل ہیں |
| جو بادشاہ تھے کل، آج حاشیہ خواں ہیں |
| یہ میرا دل ہے کہ شہرِ خیال ہے جس میں |
| ہزار خالی مکاں فرشِ راہِ انساں ہیں |
| ہر اک مکیں کے مقفل خیال کے در ہیں |
| مکاں نہیں ہیں یہ بلکہ حسین زنداں ہیں |
| یہ کس فریبِ نظر کے سراب میں گم ہیں؟ |
| یہ کس خیال میں سب لوگ محوِ رقصاں ہیں ؟ |
| مگر دبیر کی غزلوں میں کیا روانی ہے! |
| اگرچہ شہرِ سخن میں بہت غزل خواں ہیں |
معلومات