اتار پھینکیے دل کے دماغ سے ڈر کو |
خدا کے واسطے اب تو اٹھائیے سر کو |
خود اپنے قلب و نظر کو سنبھال کر رکھیے |
کبھی نہ دیجیے الزام حسنِ خود سر کو |
بہت سُواد ہمیں بھی ہے آ رہا اس میں |
کہ اور دیجیے کرنے ستم، ستم گر کو |
تمام شہر پہ پہرہ ہے تیز لہروں کا |
کوئی اس آگ سے کیسے بچائے گا گھر کو |
کوئی تو آئے ترے پاس جو تجھے دیکھے |
کوئی تو کھولے ترے دل کے عتبۂ در کو |
شکستہ کر کے ہوا بھی ہے سوچ میں گم اب |
وہ ناتواں سے پرندے کے ناتواں پر کو |
بڑے غرور سے آئے تھے کاہل و ظلمات |
بجھا سکا نہ کوئی ایک آتشِ شر کو |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات