ہم نے ہر اک خیال کو تجسیم کر دیا |
تجسیم کر کے قابلِ تعظیم کر دیا |
تعمیر کی لگن میں دل و جان بیچ کر |
ویران گھر کو آٹھویں اِقْلِیم کر دیا |
رہتے تھے ایک گھر میں وہ کیا اتفاق سے |
تقدیر نے مگر انھیں تقسیم کر دیا |
اس نے تو دے کے حکم، دیا ایک سال بھی |
دل نے پر آج ہی اسے تقدیم کر دیا |
تھا اور اپنے پاس بھلا کیا عطا کو، سو |
یہ دردِ دل عوام میں تعمیم کر دیا |
اب تم ہی "ہم سخن" کے فدائی نہیں رہے |
ہم نے بھی دل حَوالۂ تَنْظیم کر دیا |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات