تجھ کو آتا ہے ہنر گھیر کے لانے والا
وہ ترے دام میں ایسے نہیں آنے والا
یوں تو لاکھوں ہیں یہاں حسن کے تپتے صحرا
پر کوئی ایک نہیں پیاس بڑھانے والا
اے سمندر! ہے تلاطم ترے اپنے اندر
میں ہوں ہر آنکھ میں طوفان اٹھانے والا
وہ جو سائے میں کھڑا دیکھ رہا ہے مجھ کو
ہے وہی شخص مجھے دھوپ میں لانے والا
تو اندھیرا ہے، مجھے نور سے الفت لیکن
تو ہے آندھی، میں چراغوں کو جگانے والا
اب تجھے اس کی پذیرائی پہ حیرت کیوں ہے؟
جب کہ تو ہی ہے اسے سر پہ بٹھانے والا
زخم دینے کی روش عام ہوئی ہے ہرسُو
کاش ہوتا کوئی مَرْہَم بھی لگانے والا
اے دَبِیر! اس سے الجھنا نہیں آساں اتنا
وہ، وہ دریا ہے جو پلٹا نہیں کھانے والا
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
3