اسی لیے تو سُکُونِ اَبَد میں رہتا ہوں
میں اپنی آگ کے شعلے کی حد میں رہتا ہوں
یہ پانچ، بارہ یہ چودہ یہ کیا بَہَتَّر ہے؟
میں محو ایک خیالِ عدد میں رہتا ہوں
فقیہہِ شہر نے مجھ پر یہ اِفْتِرا باندھا
میں اپنے شوق کی زندانِ بد میں رہتا ہوں
مگر مرا گھر ہے اصل میں "جنون آباد"
گو ان دنوں تو میں شَہْرِ خِرَد میں رہتا ہوں
ہے اس لیے بھی مرا رو گلاب کی مانند
میں مُنْتَدَىءِ عدوِ حَسَد میں رہتا ہوں
لگن سے چاٹ رہا ہے یہ وقت میرا بدن
کہ جیتے جاگتے میں اک لحد میں رہتا ہوں
میں اپنی فکر کے کعبے کے قد تلک سوچوں
بس اس لیے ہی میں خطرے کی زد میں رہتا ہوں
زمانہ ساز نہیں ہوں میں اس لیے بَچّے!
صفِ طَویلِ ادیبان رَد میں رہتا ہوں

0
6