پھر نہ کہنا کہ مرے دل نے ہے نادانی کی
قصۂ عشق ہے اک شکل پشیمانی کی
اب خلاف اُس کے بغاوت پہ اترنا ہو گا
کیوں کہ تقدیر نے تقسیم میں من مانی کی
دشتِ ویراں تُو جسے خواب میں دیکھے اپنے
دل اُسی منزلِ آخر پہ ہے ویرانی کی
چشم نے ساتھ دیا گرچہ مرا آخر تک
ختم پھر بھی نہ ہوئی مجھ میں کمی پانی کی
ہم نے ہر درد کو سینے سے لگایا اپنے
جب کہ دنیا نے فقط بات کی آسانی کی
دولت و زر کی محبت میں سبھی ڈوبے ہیں
کوئی تو قدر کرے بے سر و سامانی کی
عمر بھر نام سرِ بزم ہمارا ہو گا
کبھی تحسین کی صورت، کبھی حیرانی کی
ہم نے ہر حال میں الفاظ سنوارے لیکن
کب ملی داد زمانے سے سخن دانی کی
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
5