سبب کچھ اور کیا ہو گا جو ہم بیزار بیٹھے ہیں |
محبت کا کہ ہم عجلت میں کر انکار بیٹھے ہیں |
یہ دل بھی آج خاموشی کی دہلیزوں پہ ٹھہرا ہے |
سو اپنے درد کو ہم بھی کیے ہموار بیٹھے ہیں |
جو حسرت دل میں پلتی تھی، وہ اب زنجیر بن بیٹھی |
اسی زنجیر کے سایے میں ہم بیمار بیٹھے ہیں |
نہیں تھی سود مند گرچہ مگر مصروف رکھتی تھی |
محبت جب سے روٹھی ہے بہت بے کار بیٹھے ہیں |
ستم پیشہ نے سن کے بات ہم کو ہی اٹھا ڈالا |
کہا جب ہم نے محفل میں تری اغیار بیٹھے ہیں |
کہاں اس درجہ خاموشی، کہاں وہ آپ کی شوخی |
یہ کن سوچوں میں گُم، گُم صُم مری سرکار بیٹھے ہیں؟ |
اجل وہ اور ہوں گے جو تیرے سنگ چل نہیں سکتے |
تو دستک دے ہمارے در پہ، ہم تیار بیٹھے ہیں |
یہ زَخْمِ دِل پہ مرہم کا تجھے ہی فن نہیں آتا |
کئی بازار میں تجھ سے بڑے فنکار بیٹھے ہیں |
غزل کا بیت اول یا کوئی بھی فرد، کیا کہنے |
کہ دل کے حال پر کیا خوب سب اشعار بیٹھے ہیں |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات