تمام قول ہی میرے جب اس نے ہلکے لیے |
تو میں نے بدلے بھی اس سے بدل بدل کے لیے |
فقط گلے ہی لگایا نہیں ہے میں نے اسے |
ستم ظریف کے بوسے بھی میں نہ بلکہ لیے |
تمام کا ہی تمام آج اس نے وار دیا |
ذرا بھی پیار بچایا نہ اس نے کل کے لیے |
یہ ایک تم ہو جسے دستیاب ہم ہیں ہوئے |
وگرنہ لوگ ترستے ہیں ایک پل کے لیے |
وہ شخص جب بھی کسی مسئلے میں گھرنے لگا |
تو میرے پاس ہی آیا وہ اس کے حل کے لیے |
دیے جلائے ہیں غم کے جو تُو نے دل میں مرے |
میں ان سے روشنی لیتا ہوں ہر غزل کے لیے |
تمہارے شعر بھی پر درد تو بہت ہیں مگر |
ہماری داد ہے بس میر یا مغل کے لیے |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات