زندگی عجلت نویسی کا قلم ہونے لگی
بے بسی کی داستاں ہر دم رقم ہونے لگی
دیکھ بیٹھے گفتگو کو عزتیں دے کر وہ جب
خامشی ان کی نظر میں محترم ہونے لگی
دشمنی میں دوستی کا ہی مزہ آنے لگا
یاد کی شعلہ زنی موجِ الم ہونے لگی
ہر کسی کے پاؤں آخر لڑکھڑاتے دیکھ کر
دشت کی وحشت ہمارے ہم قدم ہونے لگی
رفتہ رفتہ لب ہمارےمسکرانے لگ پڑے
رفتہ رفتہ چشم ان کی چشمِ نم ہونے لگی
ایک ہی وہ شخص تھا اور جب سے وہ رخصت ہوا
"رونقِ شہرِ جنون آباد" کم ہونے لگی
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
3