مسکرائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
جگمگائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
یاد کے باب میں کچھ زخم ابھی باقی ہیں
بھول جائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
یہ جو اب لوگ مجھے چھوڑ رہے ہیں سارے
لوٹ آئیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
عشق کا راستہ دشوار ہے، دل حوصلہ کر
چین پائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
اب جو رکھے ہیں تغافل کا رویہ ہم سے
چونک جائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
اپنے دشمن کے قدم دیکھ رہی ہیں آنکھیں
لڑکھڑائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
جسم کیا دیکھنا ہم ذہن کی آزادی کا
دن منائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
یہی غزلیں مری دنیا ہیں، یہ دنیا والے
گنگنائیں گے مگر دیر لگے گی تھوڑی
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
42