آنسوؤں کا چشمِ غم سے اب گزر ہوتا نہیں |
درد ہوتا ہے مگر کوئی اثر ہوتا نہیں |
زندگی میں تلخیاں کچھ اس طرح شامل ہوئیں |
اب یہ عالم ہے کہ دل بھی ہم سفر ہوتا نہیں |
زخم جو خود کو لگائیں آپ اپنے ہاتھ سے |
وقت ایسے زخمیوں کا چارہ گر ہوتا نہیں |
جس طرح تجھ کو تغافل ہے ہمارے حال سے |
اس طرح بھی یار کوئی بے خبر ہوتا نہیں |
بے حسی کے زہر نے ایسا کیا دل کو نڈھال |
شہرِ خوباں میں بھی اب دل کا بسر ہوتا نہیں |
ہم نے چاہا تھا کہ بھولیں تیرے وعدوں کے ستم |
اس پہ راضی دل کسی صورت مگر ہوتا نہیں |
لاکھ سمجھایا ہے اس کو چھوڑ دے یہ راستہ |
دل اِدَھر سے رائی بھر بھی اب اُدَھر ہوتا نہیں |
دل کے صحرا میں سرابوں کے سوا کچھ بھی نہیں |
یہ سفر ایسا ہے جو طے عمر بھر ہوتا نہیں |
زخم ایسے دے گیا ہے وقت کا بے رحم ہاتھ |
اب کوئی نسخہ کسی کا کار گر ہوتا نہیں |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات