عشق تھا شاید حدِ میعاد تک |
اب ہمیں آتے نہیں وہ یاد تک |
مانتے ہیں اُس کے احکامات بھی |
جو نہیں سنتے مری فریاد تک |
دل جلانے سے ہوا تھا جو شروع |
آن پہنچا سلسلہ اسناد تک |
ہے سڑک کوئی جو اُس کے شہر سے |
ہو کے جاتی ہو جنون آباد تک؟ |
یہ مباحث ختم ہو پائیں گے تب |
بات جب پہنچی مرے استاد تک |
ہے یہ میری شاعری کا سلسلہ |
اک حسینِ بے ریا کی داد تک |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات