ستم ظریف کے قولِ محال سے نکلو |
سرابِ عہدِ وفا کے خیال سے نکلو |
حصارِ ذات میں الجھے ہوئے حسیں لوگو! |
شکستہ ذات کے جھوٹے جمال سے نکلو |
یہ اشتعال کوئی سانحہ نہ لے آئے |
تم اشتعال کے اس احتمال سے نکلو |
کبھی تو سمجھو، خدارا! فریبِ ہستی کو |
کبھی تو محفلِ خواب و خیال سے نکلو |
گئے وہ دن کہ الجھتے تھے ہم سوالوں سے |
جواب کہتے ہیں اب تو سوال سے نکلو |
یہ وقت کب سے اٹھائے ہے تیز تیز قدم |
تم اس کے ساتھ چلو، اپنی چال سے نکلو |
یہ وقتِ بانگِ درا ہے، کہ قافلہ تو گیا |
اٹھو عمل کے لیے، قیل و قال سے نکلو |
(ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات