جو بے یقینی زمان و مکاں سے آتی ہے
خرد سے الجھی ہوئی داستاں سے آتی ہے
کوئی تو ہوگا جو اس کا پتا بتائے گا
یہ بے قراری مسلسل کہاں سے آتی ہے؟
یہ کس کی یاد ہے سایہ فگن خیالوں میں؟
یہ کس کی چاپ دلِ ناتواں سے آتی ہے؟
یہ کون ہے جو ستاروں میں مسکراتا ہے؟
یہ روشنی جو پسِ کہکشاں سے آتی ہے؟
یہ کس کا نام صداؤں میں روز سنتے ہیں؟
یہ کس کی یاد شبِ بے کراں سے آتی ہے؟
یہ کس کے ذکر سے تاثیرِ جاوداں پائی؟
یہ نغمگی جو لبِ مہرباں سے آتی ہے
سلام ہمتِ عالی کو جو کہ طوفاں میں
شکستہ ہو کے بھی موجِ رواں سے آتی ہے
کہاں وہ نور نظر آئے عہد حاضر میں؟
جو روشنیٔ ہنر رفتگاں سے آتی ہے
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
5