| سبب کچھ اور کیا ہو گا جو ہم بیزار بیٹھے ہیں |
| محبت کا کہ ہم عجلت میں کر انکار بیٹھے ہیں |
| یہ دل خاموش دروازوں پہ دستک کب تلک دیتا |
| سو اپنے درد کو یارو کیے ہموار بیٹھے ہیں |
| جو حسرت دل میں پلتی تھی، وہ اب زنجیر بن بیٹھی |
| اسی زنجیر کے سایے میں ہم بیمار بیٹھے ہیں |
| نہیں راحت فزا کم تھی مگر مصروف رکھتی تھی |
| محبت جب سے روٹھی ہے بہت بے کار بیٹھے ہیں |
| ستم پیشہ نے سن کے بات ہم کو ہی اٹھا ڈالا |
| کہا جب ہم نے محفل میں تری اغیار بیٹھے ہیں |
| کہاں اس درجہ خاموشی، کہاں وہ آپ کی شوخی |
| یہ کن سوچوں میں گُم، گُم صُم مری سرکار بیٹھے ہیں؟ |
| اجل وہ اور ہوں گے جو تیرے سنگ چل نہیں سکتے |
| تو دستک دے ہمارے در پہ، ہم تیار بیٹھے ہیں |
| یہ زَخْمِ دِل پہ مرہم کا تجھے ہی فن نہیں آتا |
| کئی بازار میں تجھ سے بڑے فنکار بیٹھے ہیں |
| غزل کا بیت اول یا کوئی بھی فرد، کیا کہنے |
| کہ دل کے حال پر کیا خوب سب اشعار بیٹھے ہیں |
| (ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات