کہاں یہ قرب میسر لگاوٹوں سے ہے؟
سفر طویل کی گہری تھکاوٹوں سے ہے
کوئی بھی بات تمہاری بری نہیں لگتی
فقط گریز مجھے ان بناوٹوں سے ہے
مجھے غرض نہ وہاں کی نفس پرستی سے
نہ تیرے شہر کی جھوٹی ملاوٹوں سے ہے
لگن کی دھوپ میں جل کر یہاں تلک پہنچا
خیال یہ جو مزین سجاوٹوں سے ہے
کوئی بھی خواب ہو، تعبیر اس کی ممکن ہے
مگر یہ راستہ حائل رکاوٹوں سے ہے
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
4