دوستی ہر ایک سے آخر چھپانی پڑ گئی
ہم کو اپنی ذات پر تہمت لگانی پڑ گئی
ہم نے کوشش تو بہت کی بات بن جائے مگر
آخرش دیوار ہی ہم کو اٹھانی پڑ گئی
روکتے تھے ہم جہاں اوروں کو جانے سے سدا
خود اُسی رستے پہ قسمت آزمانی پڑ گئی
ہم نے مشکل میں پکارا دوستوں کو تو انھیں
ہم سے بڑھ کر اک مصیبت نا گہانی پڑ گئی
روشنی کم پڑ گئی جب زندگی کی بزم میں
تو ہمیں بازار سے پھر رات لانی پڑ گئی
اپنے ہی ہاتھوں چراغِ دل بجھانا پڑ گیا
اپنے ہی ہاتھوں ہمیں آندھی چلانی پڑ گئی
دل لگی میں کہہ دیا تھا تو نے تو اے دل مرے
عمر بھر لیکن ہمیں اس سے نبھانی پڑ گئی
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
7