شہرِ شکست و ریخت کے سب بجھ گئے چراغ
لیکن ہمارے ہاتھ پہ جلتے رہے چراغ
ان سے جو دور جاؤں تو رکتی ہے میری سانس
شاید کہ زندگی ہیں مری یہ دیے، چراغ
بازارِ دل فریب میں کیا کچھ نہ تھا مگر
ہم نے حیات بیچ کے دو لے لیے چراغ
کیسے ڈرائیں گی ہمیں تاریکیاں بھلا
سینے میں جل رہے ہیں تری یاد کے چراغ
تقدیر کی ہواؤں نے سب کچھ بجھا دیا
لیکن ترے خیال کے روشن رہے چراغ
طوفان سے لڑے ہیں ہمیں اک تمام عمر
ہم نے لہو جلا کے بھی روشن کیے چراغ
امید کی کرن کبھی بجھنے نہ دیں گے ہم
ہر حال میں جلائیں گے ہم دل جلے چراغ
(ڈاکٹر دبیر عباس سید)

0
8