| اک اشارے پہ ترے شخص جو مر سکتا ہے |
| دُشمنی پر بھی کسی وقت اُتر سکتا ہے |
| دل ہوا درد سے لبریز کہ جیسے دریا |
| ایک طوفان نگاہوں سے اُبھر سکتا ہے |
| اک تعلق کی حرارت سے ہے باقی ورنہ |
| کون ان سرد رویوں میں ٹھہر سکتا ہے |
| دل کو اندیشۂ انجام سے باہر رکھ کر |
| یہ سفر شوق سے طے کر، تو گزر سکتا ہے |
| وہ اگر چاہے تو اک مردے کو زندہ کر دے |
| اس کے امکان میں سب کچھ ہے وہ کر سکتا ہے |
| (ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات