Circle Image

جواد رضا خان جامی

@Jawwad.raza

آنا تو تھا حضور پر اس بار رہ گیا
سرکار دور آپ کا دربار رہ گیا
میرے خدا نے مجھ پہ کیا تھا بڑا کرم
میں ہی نکما رہ گیا بے کار رہ گیا
سب پر ہوئی ہے آپ کی رحمت کی بارشیں
سرکار ایک ادنیٰ خطا کار رہ گیا

28
کسی کی فہم و فراست میں کیا سمائے حسین (رضی اللہ عنہ)
بس انتہائے عقیدت ہے ابتدائے حسین (رضی اللہ عنہ)
یزیدِ وقت کے ہاتھوں پہ بیعتیں کر کے
تمام شہر بنا پھرتا ہے گدائے حسین (رضی اللہ عنہ)
زمانہ بھر ہے یزیدی مزاج کا حامل
فقط زبان لگاتی رہی صدائے حسین (رضی اللہ عنہ)

1
62
کوئی نالہ کوئی شکوہ شکایت کیجئے صاحب
گزارا ہو گیا مشکل بغاوت کیجئے صاحب
چڑھا کر قوم سولی پر تسلی سے جو سویا ہے
اسے بیدار کرنے کی حماقت کیجئے صاحب
جہاں انصاف باندی ہو امیروں کے گھرانوں کی
وہاں پر پھر کھڑے ہو کر عدالت کیجئے صاحب

0
56
جو راز دل میں اتارا گیا چھپانا ہے
سخن وری کا تماشہ نہیں لگانا ہے
پہاڑ جیسے مصائب اٹھائے پھرتا ہوں
خود اپنا ظرف مجھے بھی تو آزمانا ہے

0
42
تکبیر کے جو نعرے لگاتی ہے شیرنی
بت بت کدوں کے سارے گراتی ہے شیرنی
شاید کہ پھر سے عالمِ اسلام جاگ جائے
تنہا کھڑی ہے اور بلاتی ہے شیرنی
کفار کا ہجوم ہے اور اشتعال ہے
پر خوف کوئی موت سے کھاتی ہے شیرنی

61
لیجئے میری خبر اور بے خبر ہو جائیے
آپ سے کس نے کہا تھا پل میں شر ہو جائیے
مشکلوں میں جی کے سیکھا زندگی کا یہ ہنر
قطرہ قطرہ روئیے ہنس کر شکر ہو جائیے
آج کیوں مانے گا کوئی آپ کی تقریر کو
خون دل کا روز کیجئے پھر اثر ہو جائیے

0
49
گرفتارِ بلا کو دیکھنے سرکار آئیں گے
دلِ وحشی سکوں پالے ترے غمخوار آئیں گے
گروں گا جس قدر بھی میں مجھے اتنا یقیں تو ہے
اٹھانے کے لئے حامی مرے ہر بار آئیں گے
شہا چلنے لگا ہوں میں مجھے تم دیکھتے رہنا
سنا ہے راستے میں مرحلے دشوار آئیں گے

0
64
زخم باطل پرستوں کو گہرا دیا
حق کا پرچم زمانے میں لہرا دیا
جاگنا قوم کا جس نے ٹھہرا دیا
جس نے ختمِ نبوت پہ پہرا دیا
ایسے خادم کی خدمت پہ لاکھوں سلام

0
60
سارے عزیز دوست ملنسار مر گئے
تم کیا گئے کہ سارے طرف دار مر گئے
اپنی خرد کے ساتھ چلے تیرے ہم نشیں
تم سے جو لی تھی فکر وہ افکار مر گئے
میرے خلاف سازشیں جیسے کہ تھم گئیں
وہ کیا مرے کہ سارے ستم گار مر گئے

0
36
سلگتے آتشیں موسم میں سب نے بے وفائی کی
مگر بس اک محمد مصطفیٰ نے مصطفائی کی
صلی اللّٰہ علیہ وسلم
کبھی جو جان دیتے تھے انہوں نے بھی لڑائی کی
خدا کا شکر ہے جس نے مری حاجت روائی کی
میں تنہا تھا مرا اس کے سوا حامی نہ تھا کوئی

0
55
بڑی مصروف ہے دنیا
کسی سے مل نہیں پاتے
کوئی ہم سے نہیں ملتا
کہیں پر ہم نہیں جاتے
نگاہیں کھوجتی ہیں پر
کئی چہرے ہوئے اوجھل

0
52
مرد ہونا چاہئے دم دار ہونا چاہئے
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے
مصلحت کیسی نہ ہو گر قوتِ شمشیر تو
اس زباں میں طاقتِ گفتار ہونا چاہئے
ساٹھ ستر سال سے بس سو رہے ہیں ہم وطن
اب تو میری قوم کو بیدار ہونا چاہئے

0
143
یہ پاکستان میں جو ہو رہا ہے
بلا ہے یا بلا کی انتہا ہے
مرا قائد تو ہے در گورِ زنداں
وطن دشمن ابھی نندن رہا ہے
یہ طاقت کے نشے میں چور ہوکر
ہلاکو خان کا پوتا بنا ہے

7
125
اس قدر زخم ہیں دل پہ ڈر جائے گا
ہاتھ دھیمے لگانا بکھر جائے گا
سر سے اونچا ہے پانی تو کیا ہو گیا
رب نے چاہا تو اک دن اتر جائے گا
درد و غم مشکلیں ساری مہمان ہیں
وقت ہی تو ہے صاحب گزر جائے گا

0
64
زباں سی لے یہاں سچ بولنا بھی جرم ٹھہرا ہے
یہاں چاروں طرف سے ظالموں نے آن گھیرا ہے
نرالا دور آیا ہے عجب قانون نافذ ہیں
ستم ایجاد ہوتے ہیں اندھیرا ہی اندھیرا ہے
نبی کی بات کرنا جرم ہے تو آ سزا دے دے
مرے تو خون میں شامل اسی کا رنگ گہرا ہے

0
82
السلام علیکم پچھلے دنوں ایک ہندی اردو نظم کی تقطیع کے حوالے سے بہت سی دشواریاں پیش آئیں تدوین کرتے کرتے پورا پیج ہنیگ کرجاتاٗ بہر نوع وہ تو آٹھ دن کی مشقت سے حل ہوگیا مسئلہ لیکن ابھی ہندی عربی اور فارسی کے حوالے اس پہلے سے ہی بہترین سافٹ وئیر کو اور مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے 

0
3
113
مغفرت کا دوستوں سامان ہونا چاہئے
ہو نہ ہو کچھ اور پر ایمان ہونا چاہئے
آدمی تو ایک دن بن جائیں گے یہ لوگ بھی
تھوڑا تھوڑا سا کوئی انسان ہونا چاہئے
غیرتِ ایمان سے ہے تازگی اسلام کی
عشق ہو تو برسرِ میدان ہونا چاہئے

0
59
پاپی مورکھ آن براجا مہا راجا کے دوارے اوپر
من کے سارے پاپ دھلے ہیں تمھرے ایک اشارے اوپر
سکھ دکھ کی یہ آنکھ مچولی سنکٹ میں تھی ساری ٹولی
چین کی بنسی باجن لاگی ہمرے بھی چوبارے اوپر
سانج سویرے جالی تکنا نام کے توہے مالا جپنا
پاپی ملا بھید نہ جانا جا بیٹھا انگارے اوپر

0
129
ختم ہونے کا نہیں یہ جان امکاں نور کا
ہاں ختم ہو جائے گا یہ دور ہجراں نور کا
دے خدا کے واسطے تھوڑا سا حصہ نور کا
ہے خزانہ ہاتھ تیرے جان جاناں نور کا
سو رہے ہو تان کے غفلت کی چادر چین سے
جاگنا ہے جاگ جاؤ ہے شبستاں نور کا

0
64
دن چڑھا میرے نبی کا رات آئی نور کی
بارھویں کی رات نے دولت لٹائی نور کی
پھر رہے ہیں حور و غلماں جھلملاتے نور سے
عالمِ بالا میں پھر محفل سجائی نور کی
چاند تارے حور و غلماں اور ملائک کا ہجوم
کر رہے ہیں سب کے سب مدحت سرائی نور کی

0
64
ہو نہیں سکتا علم ہر گز خمیدہ نور کا
نور کی سرکار سے پایا عقیدہ نور کا
پھوٹ جائے گر تمہیں نا دیکھ پائے چشم نم
ہے تمہارے دم سے ہی روشن یہ دیدہ نور کا
اس کی قسمت میں جہنم کا الم لکھا گیا
تم سے جو نا آشنا ہے نارسیدہ نور کا

0
46
کوہ فاراں پر دمکتی ہے جو طلعت نور کی
کل زمین و آسماں پر ہے حکومت نور کی
گلستانِ انبیا کا آخری چٹکا گلاب
اب نہ بدلی جائے گی راہِ شریعت نور کی
تم نے اے صدیق جانا سب سے بڑھ کر نور کو
پر نہ تم بھی جان پائے کل حقیقت نور کی

0
66
جلوہ فرما ہو گیا وہ ماہِ انور نور کا
جس کی نعلِ پاک کا ذرہ ہے اختر نور کا
زلفِ سرکارِ دو عالم ہیں گھٹائیں نور کی
دست اطہر پائے اطہر قلب اطہر نور کا
ان کے قدموں سے لپٹ کر جان دینا زندگی
خلد میں اڑتا پھرے گا لے کے شہپر نور کا

0
44
کس کے جلوے نے بنایا ہے نشیمن نور کا
جانِ رحمت کی تجلی سے ہے مسکن نور کا
تذکرہ سرکارِ دو عالم کا اپنا دین ہے
یاد میں ان کی جو گزرے پھر ہے جیون نور کا
لفظ سارے خرچ کرکے بھی تسلّی کیا ملی
دیکھ کر کب چین آئے دل کو جوبن نور کا

0
42
ہو گیا دریائے رحمت کو اشارہ نور کا
چل دیا سوئے زمیں خلوت سے تارہ نور کا
ہو گئی تقسیم اس کی رحمتِ بے منقسم
اس نے قاسم بھی اتارا تو اتارا نور کا
جھوم کر آتے ہیں پیاسے بہہ رہا ہے شان سے
دستِ پاکِ ساقیٔ کوثر سے دھارا نور کا

0
83
آ لگا دنیا کے ساحل پر سفینہ نور کا
ذاتِ سرکارِ دو عالم ہے مدینہ نور کا
نور کی طلعت میں دیکھیں آمنہ بی شام کو
آمنہ پر رنگ چھایا بھینا بھینا نور کا
تم بہارِ دہر کی تخلیق کی بنیاد ہو
کیوں عطا ہوتا نہ پھر تجھ کو مہینہ نور کا

0
84
قافلہ عرشِ بریں سے ایسا اترا نور کا
بھاگتی پھرتی ہے ظلمت لے کے خطرہ نور کا
مشرق و مغرب میں پھیلے تھے اندھیرے کفر کے
پھر یکایک مطلعِ انوار ابھرا نور کا
تیرے صدقے میرے ساقی ایک چھینٹا نور کا
تیرے قرباں ڈال دے بس ایک قطرہ نور کا

0
44
مرحبا صلِ علیٰ یہ دن دکھایا نور کا
مطلعِ انوار دنیا بھر پہ چھایا نور کا
لا درودوں کی مقدس ڈالیاں فردوس سے
بھیک دینے نور کی سلطان آیا نور کا
جھک رہی ہے کعبۃ اللہ کی جبیں سوئے نبی
سر جھکا کر کعبہ کو کعبہ بنایا نور کا

0
50
دہر کا ظلمت کدہ اب ہے ٹھکانہ نور کا
تم جو آئے ہو گیا سارا زمانہ نور کا
چیر کر ظلمت کا دل چمکی ضیائیں نور کی
رب کے سچے دین کا سچا نشانہ نور کا
عالمِ تخلیق کی ہر شے سلامی کو جھکی
پڑھ رہے ہیں ہر کس و ناکس ترانہ نور کا

0
53
صبحِ دل آرا ہوئی پھیلا اجالا نور کا
بارھویں کی رات نے اوڑھا قبالہ نور کا
آ گئے ہیں مصطفی لے کر اجالے نور کے
مل گیا امید کو آخر سنبھالا نور کا
شرم سے گہنا گیا افلاک پر ماہِ تمام
ناخنِ اطہر جو مٹھی سے نکالا نور کا

0
64
تمہی آرزوئے خلیلِ خدا ہو
تمہی ساری خلقت کے فرمانروا ہو
تمہی حاجتوں کو روا کرنے والے
شفاعت بروزِ جزا کرنے والے
تمہی حق سے باطل جدا کرنے والے
دلوں کو تجلی عطا کرنے والے

0
50
سرورِ سروراں شافعِ عاصیاں
جانِ ایمان جانِ جہاں معجزہ
خاتم الانبیاء الفتِ کبریا
حضرتِ احمدِ مجتبیٰ معجزہ
سیدُ الانبیا کی سواری چلی
ذاتِ والا سوئے ذاتِ باری چلی

0
67
جہاں سختی وہیں نرمی جہاں الجھے وہیں سلجھن
جہاں نفرت وہیں چاہت جہاں دل تھا وہیں دھڑکن
ہمیں اب بے مکانی کا گلہ کوئی نہیں یاروں
جہاں لیٹے وہیں بستر جہاں بچے وہیں آنگن
اسے ہر گھونٹ میں ہر چوٹ میں ہر اوٹ میں دیکھا
جہاں ڈھونڈا اسے پایا جہاں چاہا وہیں درشن

0
67
ترے شہر کی فصیلیں سرِ شام دیکھ لیں گے
تو اگر کرم کرے تو در و بام دیکھ لیں گے
میں عیوب کا ہوں پیکر مرا مول کچھ نہیں ہے
مجھے جانتے ہیں وہ ہی مرا دام دیکھ لیں گے
مری بے کسی کسی دن مرا دل نکال لے گی
اے بشیرِ دارِ عقبیٰ ترا نام دیکھ لیں گے

0
57
بدن ہے خاک اور یہ خاک تن پر اوڑھ جانا ہے
کریں اتنی مشقت کیوں جو منھ کو موڑ جانا ہے
لگاؤ دل نہ یوں ہم سے یہ دنیا روز کہتی ہے
تمہیں ویسے بھی تو اک دن سرائے چھوڑ جانا ہے

0
59
خامشی اتنی مدلل گفتگو ہے دوستوں
جس کے آگے چپ عدو کی پاؤ ہو ہے دوستوں
تم کہ جیسے ڈھول ہو کوئی بجاتا ہو جسے
جان جاؤ رب تمہارے رو برو ہے دوستوں
باپ کا ایسا ادب ہے سامنے بیٹھے ہو چپ
اور اس کا کچھ نہیں جو چار سو ہے دوستوں

0
91
سیاست کا میداں گرم ہو رہا ہے
یہ جو ہو رہا ہے ادھم ہو رہا ہے
ملی جارہی ہیں خوشی کی یہ خبریں
کراچی پہ نازل کرم ہو رہا ہے

0
81
وہ جو رنگ ہے تو قرار جاں وہ خیال ہے تو کمال ہے
وہ عروج ہے میں زوال ہوں یہ زوال ہے تو کمال ہے
وہ خدا کے نور کا آئینہ وہ خدا کا مظہرِ ذات ہے
کوئی شے بھی اس کی مثل نہیں بے مثال ہے تو کمال ہے
سرِ عرش تخت نشین وہ سرِ لامکاں کا مکیں ہے وہ
ترا عرش اس کی تلاش میں جو نڈھال ہے تو کمال ہے

0
146
اس نے سوچا ہے تو اچھا یہ سزا دی جائے
آگ پھولوں کے مقدر میں لگا دی جائے
کوچ کرنے کو کہے یا کہیں مہمان کرے
اس کی منشا تو کسی روز سنا دی جائے
ساتھ چلتے ہیں زمانے کے زمانے والے
جس طرف تیری صدا دیتا منادی جائے

0
41
اس قدر جرم و خطا پر بھی اماں میں رکھ لیا
ہائے کیسا مال تھا کیسی دکاں میں رکھ لیا
خالقِ ارض و سما نے ذرۂ ناچیز کو
سب کی ٹھوکر سے اٹھا کر کہکشاں میں رکھ لیا
جب سے عندَ ظنَّ عبدی سن لیا محبوب سے
ہم نے رب کی رحمتوں کو خوش گماں میں رکھ لیا

0
59
نکلا وہ ماہِ نبوت ابھرا وہ مہرِ رسالت
آج سے کون و مکاں پر ہے اسی گل کی حکومت
مرحبا جانِ دو عالم مرحبا نورِ مجسم
مرحبا رمزِ معالی مرحبا رمزِ معالی
لایا قرآنِ ہدایت پایا عرفانِ محبت
جان پایا کیا زمانہ میرے پیارے کی حقیقت

0
98
وہ بنجر زمینوں کو شاداب کردے
حقیقت کو چاہے تو اک خواب کردے
وہ چاہے تو سونا گرے آسماں سے
نہ چاہے تو لقمے بھی نایاب کردے
بہاؤ کوئی اشک خوفِ خدا میں
عجب کیا وہ رحمت کا سیلاب کردے

0
53
دکھا دے اے خدا اک بار میرے یار کا چہرہ
نظر پر نقش کردے سیدِ ابرار کا چہرہ
جو پڑتی روشنی چھن کر قمر کے داغ دھل جاتے
دمکتا آسماں پر جلوۂ دیدار کا چہرہ
قیامت اس سے بڑھ کے اور کیا ہوگی زمانے پر
مشیت نے چھپا کر رکھ لیا سرکار کا چہرہ

0
102
مساوات و اخوت کا چمن آباد ہونا ہے
تعصب کی بھری فصلیں ابھی برباد ہونا ہے
نہ سندھی ہوں بلوچی ہوں مہاجر ہوں نہ پنجابی
ہمیں اک قوم ہونا ہے اگر کچھ شاد ہونا ہے

0
78
نیا کرنا تو مشکل ہے پرانا ہی وطن دے دو
بس اب سے چند سالوں پہلے کا چال و چلن دے دو
قیادت بوسکی اوڑھے ہوئے جب راج کرتی تھی
مساوت کی مہک سے جو بسا تھا وہ چمن دے دو

0
55
ہر آنکھ پر ہے پردہ ہر کان بند یاں ہے
جمہوریت میں صاحب جمہور لٹ رہا ہے
نالش کریں کہاں پر پرچہ کہاں کٹائیں
اس پاک سر زمیں پر مزدور لٹ رہا ہے

0
46
پہلے تو اک وطن کا تقاضہ تھا قوم کو
اب قوم ایک چاہتی ہے پاک سر زمیں
اپنے ہی گھر میں کھینچ کے رکھ دی ہیں سرحدیں
اس کی مثال کوئی بھی ملتی نہیں کہیں

0
43
دشمن نے خیر اتنا تو احسان کر دیا
میری تمام قوم کو یکجان کر دیا
باہم لہو کے پیاسے بھی شیر و شکر ہوئے
بدلے کچھ اس طرح سے کہ حیران کر دیا

0
80
بھوکے ہوئے تو کرب و بلا نام لے لیا
پیاسے ہوئے تو تشنگی کا جام لے لیا
میری اٹھا کے دیکھ لو تاریخ دشمنو
لکڑی سے ہم نے تیغ کا بھی کام لے لیا

0
66
الجھے اگر جناب تو یہ بات جان لیں
ہم وہ نہیں جو آپ کی ہر بات مان لیں
قدموں میں لا گرائیں گے افلاک آپ کے
اک بار کوئی بات اگر جی میں ٹھان لیں

0
84
امریکی سرداروں کو یہ سمجھا دو
اپنا سارے عالم میں وہ شہرہ ہے
لکڑی سے سر کاٹ چکے ہیں پہلے بھی
میری قوم کا ماضی ایسا گزرا ہے

0
52
نیا سورج نئی خوشیاں نیا موسم دکھائے گا
پرانے زخم پر کوئی نیا مرہم لگائے گا
نیا جو سال ابھرا ہے نئی امید لائے گا
قیادت کے دریچے پر نئے چہرے دکھائے گا

0
70
ہمارے بل پر زمانے بھر کا یہ چودھری ہے
کہاوت اس کی میں چند لفظی تمہیں سناؤں
جو ہم نہ ہوتے تو جانے کب کا بکھر گیا تھا
ہمیں ڈکارے ہماری بلی ہمیں میاوؤں

0
61
کبھی اوروں کے بھی جذبات تو دیکھا کرو بھائی
جہاں پر بولنا ٹھہرے وہاں بولا کرو بھائی
ضروری تو نہیں ہر بات کی تفسیر بھی پوچھو
خود اپنی عقل و دانش سے ذرا سمجھا کرو بھائی
کڑکتی دھوپ ہے ننگے قدم اور آبلہ پائی
خدا کے واسطے اس قوم پر سایہ کرو بھائی

0
43
مری آنکھ میں بھر جمالِ محمد ﷺ
مرے دل کو دے دے خیالِ محمد ﷺ
کسی کا بھی محتاج پھر کیوں رہوں میں
اگر ہو لبوں پر سوالِ محمد ﷺ
ہے واصل خدا سے‘ نہ بندوں سے غافل
یہی دیکھ لے اک کمالِ محمد ﷺ

0
48
بھٹکتا پھر رہا ہوں دل میں تیری آرزو لے کر
شبِ دیجور میں تیری کرن کی گفتگو لے کر
ترے ناخونِ انور کی تجلی کیا ہوئی نازل
اٹھائے پھرتے ہیں شمس و قمر وہ چار سو لے کر
بیابانِ عرب آنکھوں میں جب پھرتا ہو بن دیکھے
گلستانِ عجم میں کیا کروں پھر رنگ و بو لے کر

0
46
حضور آپ کے جاں نثار اور بھی ہیں
بہادر جری بے شمار اور بھی ہیں
اگر چہ حکومت نہیں اپنے بس میں
مگر جاں پہ با اختیار اور بھی ہیں
یہاں ایک ممتاز ہی بس نہیں تھا
ابھی عاشقوں کی قطار اور بھی ہیں

0
59
بلا رہے تھے نبی سو شہید ہونا تھا
مئے حبیب لہو سے کشید ہونا تھا
یہ بزم تیری نہیں تھی یہاں سے جانا تھا
حقیقتوں کا تجھے چشم دید ہونا تھا
اگر حیات جو ملتی تو ایک ہی رہتا
مگر تجھے تو جہاں میں مزید ہونا تھا

0
59
خدا ہے نبی ہے قیامت ہے میں ہوں
شفیع و سخی ہے عدالت ہے میں ہوں
گناہوں سے سارے بھرے ہیں دفاتر
کرم ہے بھرم ہے خجالت ہے میں ہوں
پسِ مرگ کس کو میں آواز دیتا
اندھیری لحد ہے ندامت ہے میں ہوں

0
56
سجدہ کروں تو عرش کا منظر دکھائی دے
وقتِ دعا حضور کا منبر دکھائی دے
اک بار شہر یار ارم خواب میں دکھا
اور پھر یہ چاہتا ہوں کہ اکثر دکھائی دے
تیری نظر میں ہیرے جواہر ہیں قیمتی
مجھ کو تو کل جہان ہی کنکر دکھائی دے

0
105
تاج والے سب ترے احسان پر موقوف ہے
تیرا ذکرِ خیر بھی ایمان پر موقوف ہے
بس میں ہو تو یہ جہاں کیا ہر جہاں میں وار دوں
ہائے لیکن زور تو اک جان پر موقوف ہے
کل حقیقت تیری نا جانی کسی بھی فرد نے
جس نے جو مانا وہ سب عرفان پر موقوف ہے

0
60
مل جائے گر حضور سے قطرہ بچا ہوا
روشن ہو میری آنکھ پہ سارا سنا ہوا
برہم ہیں کیوں مزاج تڑپتا ہے کیوں جگر
گرتا نہیں وہ سر جو اگر ہو جھکا ہوا
یہ دہر بے ثبات ہے اس کو نہیں ثبات
اچھا ہوا کہ اس سے نہیں دل لگا ہوا

0
39
تم نے دیکھا ہے معجزہ ہوتے
میں نے ہر سانس معجزہ دیکھی
ہم نے دیکھا تو پھر کیا سجدہ
تو نے سجدہ کیا دکھا دیکھی

0
48
بڑی جرأت سے کہتا ہوں یہ حیرانی نہیں جاتی
دلِ کافر عمل تیری مسلمانی نہیں جاتی
نہیں بالکل نہیں کلمہ ترے کردار میں شامل
صداقت کی ضیا پاشی نہیں گفتار میں شامل
مصفیٰ روح کا جلوہ نہیں بیمار میں شامل
ہے بس ابلیس کی شوریدگی افکار میں شامل

0
47
ہمیں ہے اختیار اتنا لٹیرا ہم کو چننا ہے
کوئی آئے کوئی جائے ہمارا کیا بدلنا ہے
ہمارا کام ہے سر پر تمہارے تاج کو رکھنا
پھر اس کے بعد سالوں تک یونہی بس ہاتھ ملنا ہے

0
45
مرے والد کی تو کل تن خواہ تھی ایک سو دو
نہیں ہوتی شکم سیری یہاں نو سو روپے میں اب
مرے چار آنے دن بھر مجھے مستی میں رکھتے تھے
نہیں ہوتے ہیں خوش بچے ہمارے سو روپے میں اب

0
62
ہوگی نومولود سے پرسش اثاثوں کی یہاں
کتنی دولت کتنا رتبہ کتنی کاریں ہیں بتا
اور غریبِ شہر کے بچے سے فرمائیں گے وہ
تو جہانِ غیر سے آیا ہے واپس لوٹ جا

0
72
اندھیرے بانٹ کر اپنے اجالے چھین لیتا ہے
غریبِ شہر کے منھ سے نوالے چھین لیتا ہے
مرے گھر میں عداوت کی فصیلیں کھینچ دیتا ہے
مرےلوگوں سے چاہت کے حوالے چھین لیتا ہے

0
51
دعا کام میرا اثر آپ دے دیں
بس اک مختصر سی نظر آپ دے دیں
نہیں سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ
مجھے اپنی نگری میں گھر آپ دے دیں
ستاروں سے مٹھی بھری ہے ہماری
چمک جائے دل بھی قمر آپ دے دیں

0
96
احمد رضا چراغ ہدایت کا نام ہے
تاریکی میں وہ علم کا ماہ ِ تمام ہے
وہ جا نشین غوث ہے نائب حضور کا
فقہ میں بو حنیفہ کا قائم مقام ہے
اس نے جلا دیئے ہیں دیئے وہ قلوب میں
تاریکیوں کو پاؤں بھی دھرنا حرام ہے

1
87
خداوندا تری مسجد پہ بھی شیطان قابض ہیں
دھرم کی مسندِ زرّیں پہ بے ایمان قابض ہیں
شبِ دیجور کیا آئی کہ سارا دن گیا یارب
اماموں سے امامت کا ہنر تو چھن گیا یارب
سرِ منبر خطابت کے بڑے جوہر دکھاتا ہے
تو پھر خلوت کدے میں کیوں خدا کو بھول جاتا ہے

0
50
حبیبِ ربِ کبریا نبی امامِ انبیاء
سراج ہے وہ دین کا وہ رہنمائے اولیا
وہ مقتدوں کا مقتدا حقیقتوں کی انتہا
عقیدتوں کی تشنگی نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
خدا کا انتخاب ہے معلّمِ کتاب ہے

0
175
وہی رب ہے جس نے حیاتِ نو بخشی
قمر کو تجلی مہر کو ضو بخشی
وہی سب سے اول وہی سب کے آخر
وہی سب کا باطن وہی سب سے ظاہر
وہی سب سے پہلا کہ جب کچھ نہیں تھا
نہ لوح و قلم تھے نہ عرشِ مبیں تھا

0
52
بیتے کہاں سکون کے احوال دیکھنا
کیسا ہوا ہے عشق میں یہ حال دیکھنا
اس حسنِ بے حجاب کی تابش سے ایک دن
جل جائیں گے ہمارے پر و بال دیکھنا
جب ہجر کے ہجوم سے گھبرائے جی کبھی
وقتِ وصال یار کے پھر سال دیکھنا

0
60
مرے محبوب کی راہوں پہ چلنا بھی ضروری ہے
طبیعت کو شریعت میں بدلنا بھی ضروری ہے
ہمیشہ ٹھوکریں کھاتے ہوئے جینا بھی جینا ہے
یہاں چلنا بھی مشکل اور بچنا بھی ضروری ہے
میسر ہو گیا دربار تو ساکن نہ بیٹھو پھر
لپٹ کر ان کے دامن سے مچلنا بھی ضروری ہے

0
75
ان کے ہوتے غیر کے احساں اٹھائیں کس لئے
وہ مِرے اپنے ہیں اپنے پھر بنائیں کس لئے
جانتا ہوں حال میرا سب تمہیں معلوم ہے
پھر جہاں کو حال دل اپنا سنائیں کس لئے
دیر تک کوئی کسے مہمان رکھتا ہے یہاں
سو ترا در چھوڑ کے سرکار جائیں کس لئے

0
2
98
برباد ہم جو ہوگئے آباد تم ہوئے
قاتل تمہی تھے میرے کہ فریاد تم ہوئے
اب بھی اسی کی شاخ سے لپٹا ہوا ہوں میں
جس پیڑ سے گرا کے بہت شاد تم ہوئے
ٹوٹے گا تم سے کیسے لہو کا یہ رابطہ
ہر روز ہر گھڑی میں مجھے یاد تم ہوئے

0
107