حبیبِ ربِ کبریا نبی امامِ انبیاء
سراج ہے وہ دین کا وہ رہنمائے اولیا
وہ مقتدوں کا مقتدا حقیقتوں کی انتہا
عقیدتوں کی تشنگی نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
خدا کا انتخاب ہے معلّمِ کتاب ہے
ہدایتوں کا باب ہے کرم کا آفتاب ہے
یہ نورِ بے حجاب ہے یہ ایسا لاجواب ہے
کہ ہر کمی سے ہے بری نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
صداقتوں کا یہ یقیں امانتوں کا یہ امیں
یہاں وہاں کہاں کہیں یہ ہر جگہ ہے ہر کہیں
وہ خلق میں ہے اوّلیں ہے سب سے پہلا نازنیں
ہے سب سے پہلی زندگی نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
کسی کا اشتیاق ہے کسی کے دل پہ شاق ہے
مہر کا یہ سیاق ہے قمر کا یہ سباق ہے
یہ خلقتوں میں طاق ہے اسی پہ اتفاق ہے
یہ نور ہے یہ بندگی نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
یہ صاحبِ قران ہے یہ مالکِ زمان ہے
یہ نور کا نشان ہے یہ بندگی کی شان ہے
امان ہی امان ہے زمانے بھر کی جان ہے
زمانے بھر کی ہے خوشی نبی نبی نبی نبی
زمانے بھر کی ہے خوشی نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
اسی کا نور چار سو اسی کی سب میں گفتگو
جناں اسی کی رنگ و بو یہی ہے سب کے روبرو
یہاں نہ کوئی میں نہ تو دمن دمن ہے کو بہ کو
چمن چمن گلی گلی نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
یہ شاہِ خوش خصال ہے ازل سے لازوال ہے
کمال ہی کمال ہے اسی کا سب جمال ہے
یہ ذات حق پہ دال ہے کہاں کوئی مثال ہے
ہے کس کو اس پہ برتری نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
نعیم ہی نعیم ہے عظیم ہی عظیم ہے
کریم ہی کریم ہے رحیم ہی رحیم ہے
خلیل ہے کلیم ہے صراطِ مستقیم ہے
اسی کو زیب رہبری نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
یہ عاشقوں کی عید ہے یہ آخری امید ہے
نجات کی نوید ہے یہ خلد کی کلید ہے
یہ اس قدر سعید ہے خدا کا چشم دید ہے
خدا کی ہے یہ روشنی نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
اسی کے سر پہ تاج ہے اسی کا جگ پہ راج ہے
اسی کا کام کاج ہے اسی کا یہ سماج ہے
ازل سے یہ رواج ہے یہ عشق کا مزاج ہے
ازل سے یہ رواج ہے یہ عشق کا مزاج ہے
کہ چل رہی ہے شاعری نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی
چمن پہ وہ نکھار دیں بہار ہی بہار دیں
حضور سب نثار دیں یہ جان تم پہ وار دیں
یہ نفس میرا مار دیں بس اتنا اختیار دیں
کہ جامی بھی ہو متَّقِی نبی نبی نبی نبی
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی

0
178