وہ جو رنگ ہے تو قرار جاں وہ خیال ہے تو کمال ہے |
وہ عروج ہے میں زوال ہوں یہ زوال ہے تو کمال ہے |
وہ خدا کے نور کا آئینہ وہ خدا کا مظہرِ ذات ہے |
کوئی شے بھی اس کی مثل نہیں بے مثال ہے تو کمال ہے |
سرِ عرش تخت نشین وہ سرِ لامکاں کا مکیں ہے وہ |
ترا عرش اس کی تلاش میں جو نڈھال ہے تو کمال ہے |
اسی گل کا حشر نمود ہے وہی ہست ہے وہی بود ہے |
اسی مصطفیٰ پہ درود ہے جو کمال ہے تو کمال ہے |
ترا نور ہے تو شعور ہے ترا رنگ ہے تو یہ ڈھنگ ہے |
ترے یار گویا شعار ہیں تری آل ہے تو کمال ہے |
وہ حسن حسین ہیں روشنی مری آرزوؤں کی تشنگی |
وہی چار یار ہیں زندگی وہ بلال ہے تو کمال ہے |
ترے در پہ آئے ہوؤں کو جب سبھی مل ہی جاتا ہو بے طلب |
سو اگر کوئی ترے سامنے جو سوال ہے تو کمال ہے |
ترے در سے خوشیوں کی بھیک لے وہ تو خوش رہا وہ تو خوش رہے |
تری راہ میں جو اٹھائے غم وہ نہال ہے تو کمال ہے |
میں لٹا لٹا سا بھی خوش رہا میں دکھا دکھا سا بھی شاد ہوں |
ترے عشق میں کوئی دکھ نہ غم نہ ملال ہے تو کمال ہے |
یہ گناہ گار کی سر کشی وہ شفاعتوں کی ہے دلکشی |
مرے جرم رقصاں ہیں وجد میں یہ جلال ہے تو کمال ہے |
دلِ مضطرب کو سکوں ملے وہ اگر ملے بھی تو کیوں ملے |
یہ برے عمل پہ امید وہ جو محال ہے تو کمال ہے |
کسے دکھڑے جامی سناؤں میں کسے داغ دل کے دکھاؤں میں |
وہ طبیب میرا جو خیر سے مری ڈھال ہے تو کمال ہے |
معلومات